کم کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ خود اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نعوذ باللہ ہم پلّہ بلکہ ان سے اونچی شان کا حامل قرار دیتے ہیں جیسا کہ ان کا ایک مرید ان کی زندگی اور ان کی موجودگی میں ان کی مدح اور توصیف ان الفاظ میں کرتاہے ؎ محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیان میں مرز ا غلام احمد نے اس گستاخ کونہ جھڑکا اور نہ ہی ڈانٹا بلکہ زبانِ مبارک سے جزاک اللہ کہااور فریم شدہ قصیدہ گھر لے آئے۔ مولانا کمیرپوری بتاتے ہیں کہ سکریننگ کمیٹی میں جو سوالات ہماری طرف سے پیش کئے گئے، ان میں یہ سوال اپنے صحیح حوالہ سے ساتھ شامل تھا۔ تاہم یہ سوال ایک اور رُکن اسمبلی کی طرف سےبھی آیا تھا، لیکن اُنہوں نے غلطی سے اخبار بدر،قادیان کی جگہ الفضل قادیان لکھ دیا تھا۔ سکریننگ کمیٹی نے طے کیا کہ یہ سوال اس معزز ممبر کی طرف سے پیش ہوا اور اس کامنشا یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ ارکانِ اسمبلی کو جرح کےعمل میں شریک کیا جائے۔ مرزاناصر احمد سے اٹارنی جنرل نےجب یہ سوال کیا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ سوال قطعی بے بنیاد ہے کیونکہ اخبار الفضل تو شروع ہی مرزاغلام احمد کی وفات کے بعد ہوا تھا۔ اٹارنی جنرل نے سوال واپس لےلیا اور ارکانِ اسمبلی کو صحیح حوالہ پیش کرنے کی ہدایت فرمائی۔ مولانا کمیرپوری نےمتعلقہ کمیٹی کی وساطت سے قومی اسمبلی کے سیکرٹری او راٹارنی جنرل تک اصل حوالہ پہنچایا، دوسرے دن کارروائی کے آغاز ہی میں اٹارنی جنرل نےمرزا ناصر احمد سےکہا کہ مرزا صاحب وہ کل والی بات پوری طرح صاف نہیں ہوئی۔مرزا ناصر احمد نے پُراعتماد اَنداز میں کہا:جناب میں بتا چکا ہوں کہ 1902ء میں ’الفضل‘ تھا ہی نہیں۔ اٹارنی جنرل نےکہاکہ ہوسکتا ہےکہ کسی او راخبار ، رسالے یا کتاب میں ہو اور فاضل ممبر کو حوالہ لکھنے میں غلطی ہو گئی ہو۔ آپ اپنے پورے لٹریچر سے اس کی نفی کریں، مرزا ناصر احمد نے ایسے ہی کہا اور کہاکہ یہ ہم پرکھلم کھلا بہتان ہے، میں اپنے مکمل لٹریچر میں سے اس کی نفی کرتاہوں اس پر اٹارنی جنرل نے ہمارا پیش کردہ 22/ اکتوبر 1902ء کا اخبار’بدر‘ قادیان نکالا اور بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے ہوئے قومی اسمبلی کو ورطۂ حیرت میں اور خلیفہ ربوہ کو بحرندامت میں ڈال دیا۔ |