Maktaba Wahhabi

95 - 111
ملک گیر شکل اختیارکرگئی جس میں مرکزی سطح پر علامہ احسان الٰہی ظہیر، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا حافظ عبدالحق صدیق رحمۃ اللہ علیہ ساہیوال، مولانا محمد حسین شیخوپوری، مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری بوریوالہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ آف گوجرانوالہ پیش پیش تھے۔ ہمارے شہر فیصل آباد میں مقامی مجلس عمل کےصدر میاں طفیل احمدضیا (جماعت اسلامی) اور ان سطور کا راقم سیکرٹری جنرل تھے۔ تمام مکاتبِ فکر پر مشتمل علماے کرام، مرکزی مجلس عمل کے ممتاز قائدین اور علماے اُمت نے یہ تحریک اسی منصوبہ بندی اورحکمت عملی سے چلائی کہ سارا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔ حکومت نے صمدانی کمیشن تشکیل دیاجس نے ربوہ اسٹیشن کے سانحہ اور آمدہ واقعات کی تحقیقات کی مگر پھر ہوا یہ کہ قومی اسمبلی کو انکوائری کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا اور مرزائی لاہوری پارٹی کے سربراہ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد پر قومی اسمبلی میں کئی روز تک جرح ہوتی رہی، جرح کے لیےیہ طریق کارطے ہوا کہ اراکین اسمبلی جو سوال کریں وہ سکریننگ کمیٹی میں پہلے پیش کریں او راس کے ساتھ مرزائی لٹریچر سے وہ عبارت مع حوالہ جات درج کریں جس کی بنا پر وہ سوال کررہے ہیں۔ کمیٹی کے مطالبہ پر اصل کتاب اور دستاویزات بھی مہیا کریں۔ یہ کمیٹی معقول اور مدلل سوالات اٹارنی جنرل کو فراہم کرے جو متعلقہ رکن اسمبلی کےحوالےسے مرزائی لیڈروں سےجواب طلب کریں۔ سوالات مرتب کرنے کے لیے رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد سلیمان تونسوی نے خواجہ قمر الدین سیالوی سےکہاکہ وہ ان کی راہنمائی کے لیے کسی صاحبِ علم کا انتظام کریں۔ خواجہ سیالوی نےمولانا محمد ابراہیم کمیرپوری معروف اہلحدیث عالم اورمناظر کا انتخاب کیا۔چنانچہ مولانا کمیرپوری خواجہ تونسوی کےپاس اسلام آباد پہنچ گئے جہاں اُنہیں معلوم ہوا کہ مفتی محمود ، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالحکیم اور پروفیسر عبدالغفور و دیگر حضرات نے بھی اسی مقصد کے لیے کچھ علما کی خدمات حاصل کررکھی ہیں۔اٹارنی جنرل ممبران کے حوالے سے جو سوال کرتے، وہ دراصل انہی علما کےمرتب کردہ ہوتےتھے جو درمیانی کمیٹیوں سے پاس ہوکر وہاں تک پہنچتے تھے۔ اَرکانِ اسمبلی کی طرف سے مرزا ناصر پر کیا جانے والا آخری سوال یہ تھا: ’’آپ لوگ مرزا کی نبوت کو ظلّی بروزی اور لغوی وغیرہ کہہ کر اس کی شدت اور سنگینی کو
Flag Counter