Maktaba Wahhabi

84 - 111
درمیان فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ اس نظم و ضبط کو بھی قیدہی کہیں گے تو پھر اس عُقدے کو کیسےحل کریں گے کہ اس کائنات کے اُمورِ کو نیہ کے اَندر یہی نظم و ضبط ہے بلکہ انسان خود اپنی فطرت و طبیعت کے اعتبار سے ایک نظم طبعی کا پابند ٹھہرایا گیا ہے۔انسان بھوک، پیاس کے سامنے بے دست و پا ہے، ا س کے لیے وہ کھانے، پینے کے ایک وسیع نظام کا پابند ہے، وہ مجبور و مضطر ہے کہ وہ مخصوص اَقسام کی ہی چیزیں کھا پی سکتا ہے۔ پھر ان کی مخصوص مقدار اور مخصوص کیفیت کے ساتھ ہی کھا سکتا ہے۔ یعنی وہ گھاس کو اپنی خوراک نہیں بنا سکتا، وہ باسی اور خراب کھانا نہیں کھاسکتا، اسی طرح وہ ایک مخصوص مقدارسے زیادہ کھانا نہیں کھا سکتا۔اگر اس کے مخالف چلے گا تو اپنے جسم کی سلامتی و صحت کھو بیٹھے گا۔ چنانچہ اسی طرح اپنا اجتماعی اور معاشرتی نظم برقرار رکھنےکے لیے اِنسان نظم و ضبط یا قوانین و ضوابط کا پابند ہوتا ہے۔اپنے آپ معاشرتی وحدت میں پرونے کےلیےمتعلقہ معاشرے کے رسوم و رواج، عادات و اَطوار اور مجلس کے آداب کی پاسداری کرتا ہے۔ اپنے لباس کی تراش خراش، اپنے گھر کی شکل و ہیئت، اسی طرح سڑکوں اور راستوں کےقوانین کی پابندی انسان کرتا ہے اور ان رسوم و قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اسےاخلاقی یاقانونی سزابہرحال بھگتنا پڑتی ہے۔اور ان قوانین و رسوم کی بندش در اصل انسان کو اس لیے محسوس نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ان سے مانوس ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو زندگی ساری کی ساری حدود و ضوابط میں جکڑی ہوئی ہے، کیونکہ اگر ایسےنہیں ہوگا تو معاملات کیسے چلیں گے اور اُنہیں اپنے مطلوبہ اَنجام تک کیسےپہنچایا جائے۔ معاشرےکی اصلاح اور لاقانونیت ختم کرنے کےلیے ایک اجتماعی نظم کی پیروی کرنا ہی پڑتی ہے، کوئی شہری اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ بس ایسے ہی اِصلاح اُمت کے لیے شرعی قوانین کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ کہنے کاکوئی جواز ہی نہیں رہتاکہ اسلام انسانی آزادی سلب کرلیتا ہے۔یہ تو اسلام پر ایک بہت بڑا بہتان ہے او راس طرح کا گمان رکھنے والا اللہ کی عدالت میں مجرم ہوگا۔ اور یہ بھی غلط ہے کہ اسلام انسانی صلاحیتیں محدود کرکے رکھ دیتا ہے۔ اُنہیں ترقی اور نشوونما کےمواقع فراہم
Flag Counter