حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( المرء على دین خلیله ينظر أحدکم من یخالل)) [1] یعنی آدمی اپنے ہم نشین ساطرزِ زندگی اپناتا ہے چنانچہ کسی کی ہم نشینی سے پہلے اس کے بارے میں غور کرلو کہ وہ کیسا ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا: (( مثل الجلیس السوء کنافخ الکیر أما أن یحرق ثیابك واما أن تجد منه رائحة کریحة)) [2]’’برے مجلسی کی مثال لوہار کی بھٹی کی طرح ہے یا تو وہ تیرے کپڑے جلا دی گی یا پھر تو اس کے دھوئیں کو چکھ لے گا۔‘‘ صحبتِ صالح را صالح کند صحبتِ طالع راطالع کند اس مسئلے کا حل یہ ہےکہ نوجوانوں کو چاہیے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو نیکی اور بھلائی کا سرچشمہ ہوں اور عقل و دانش کاپیکر ہوں تاکہ اُن سے کسبِ خیر ،اِصلاح اَحوال اورعقل کوجلا بخشی جائے۔ اس لیے کسی صحبت سے پہلے اس معاملات اور رویوں کوخود بھی پرکھنا اور دوسرے لوگوں سےبھی سن لینا چاہئے۔اگر تو وہ صاحبِ اخلاق، صاحبِ دین اور اعلیٰ کردار کا مالک ہو اور لوگ بھی اسے اچھا کہیں یعنی دید شنید دونوں ہی بہتر ہوں تو اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ، تعلقات اِستوار کرو۔ اس کے برعکس اگر وہ بداَخلاق اور بدکردار ہے تو اس سے دوری اختیارکرجاؤ۔ چاہے وہ اپنی صورت میں چاند سے زیادہ خوبصورت ہو، اپنی باتوں میں شہد سے زیادہ شیرینی رکھتا ہو، اپنی شخصیّت اور ظاہری وضع قطع کے لحاظ سے کمال کو پہنچا ہواہو تو پھر بھی اس سے اجتناب کرو۔ کیونکہ یہ تمام ظاہری خوبیاں شیطان، بندگانِ الٰہ کو گمراہ کرنے کے لیےاستعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی ظاہری چمک دمک نظروں کو خیرہ کردیتی ہے۔ سو اس وجہ سے لوگ اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ بدقسمت شیطان کے لیے آلہ گمراہی اور فسق و فجور ہوتا ہے ؎ اب کسی پوشاک میں کردار کی خوشبو نہیں رہی چھپ گئی ہے انسان کی پہچان ملبوسات میں! |