Maktaba Wahhabi

70 - 111
قائل کی بات کوئی مثبت اَثر نہیں رکھتی بلکہ اس کی دعوت کے اثرات برعکس ہو سکتے ہیں۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۰۰۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۰۰۳﴾ [1] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جوکرتے نہیں۔‘‘ ہمارے لیے زیادہ مناسب یہی ہوگا کہ ابتداءً ہم اپنی بحث کا آغاز اس طریقے سے کریں کہ نوجوانوں کے اَفکار و اعمال کے بارے میں غور کریں تاکہ جو اعمال صالح ہوں ان کی حوصلہ اَفزائی کرسکیں اور جو فاسد ہیں ان کی اصلاح کی جاسکے، کیونکہ آج کے نوجوان کل کے ذمہ دار شہری ہیں اور نوجوان ہی وہ اَساس ہیں جن پر اُمّت کے مستقبل کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے نصوصِ شرعیہ میں اُن کے ساتھ اچھا سلوک اور اس چیز کی طرف رہنمائی کرنے پر اُبھارا گیا ہے جس میں اِصلاح اور خیر ہو اور جب نوجوانوں کی اصلاح ہوجائے گی تو عنقریب اُمّت کا مستقبل روشن ہوجائے گا پھر ہمارے بزرگ نسل کے جانشین نیک اور صالح لوگ ہوں گے۔ نوجوان ہی اُمّت کی وہ اَساس ہیں جن پر اُمت کے مستقبل کا دار و مدار ہے اور ان کی اصلاح دو مضبوط معاشرتی ستونوں یعنی دین و اخلاق پر مبنی ہے۔ نوجوانوں کے رجحانا ت جب ہم ایک تحقیقی نظر سےعصر حاضر کے نوجوانوں کےبارے میں غور و خوض کرتے ہیں تو ہمیں تین طرح کے لوگ نظر آتے ہیں: 1. وہ نوجوان جو صراط ِمستقیم پر گامزن ہیں۔ 2. وہ نوجوان جو الحاد و دہریت کی راہ اختیار کرچکےہیں۔ 3. وہ نوجوان جو دونوں رجحانات کے مابین ابھی تک حیران و پریشان ہیں۔
Flag Counter