1. دین سے گہرا رابطہ ورشتہ اخلاق یہی دونوں چیزیں معاشرے کے ستون ہیں،انہی سے دنیا اور آخرت کی اِصلاح ہوسکتی ہے اور انہی کے ذریعے خیرات و برکات کو حاصل کیا جا سکتا اور شرور وآفات ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ بات تو بلا شبہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح مکان صرف اپنے مکینوں سے ہی آباد ہوتا ہےایسے ہی دین، دینداروں سے ہی قائم ہوتا ہے۔ جب وہ دین کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیں گے تو پھر ان کا دشمن چاہے کوئی بھی ہو تو اللہ ان کی مدد کریں گے۔ قرآن میں ہے:﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۰۰۷ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ۰۰۸﴾[1] ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوطی سے جما دے گا۔رہے وہ لوگ جنہوں نےکفر کیا ہے تو ان کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے۔‘‘ جب حقیقت یہ ہے کہ دین صرف دینداروں کے ذریعے ہی قائم ہوتا ہے تو ہم اہل اسلام اور اس کا عَلم اٹھانے والوں پر لازم ہے کہ سب سے پہلے بذاتِ خود اس پر عمل پیرا ہوں۔ تاکہ ہم دنیا کے لیے قیادت و ہدایت کا فریضہ سر اَنجام دے سکیں اور توفیق و اصلاح کا محور بن سکیں ۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنّت سیکھیں جو ہمیں قول و عمل اور راہنمائی و دعوت کا اہل بنا دے تاکہ ہم ہر اُس شخص کے لیے جو حق و باطل کی تلاش اور اس میں امتیاز کا اِرادہ رکھتا ہے، اَسلاف کی رو ایات کے امین او رروشن چراغ کے متحمل بن سکیں۔ پھر ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ جو کچھ ہم نے سیکھا ہے، اسے اپنی عملی زندگی میں ایسی تطبیق کریں جس کا چشمہ ایمان و یقین اور اخلاص و اتباع سے پھوٹے۔ صر ف باتیں اور دعوے ہی کرنا اہل اِسلام کے شایان شان اور لائق نہیں، کیونکہ جب عمل بات کی تصدیق نہ کرے تو |