رسالت کی حد ثابت ہونے پر اسے قتل کیا جائے ۔ قرآن و سنت ، اجماعِ صحابہ اور علماے اُمت سب اس پر متفق ہیں۔ اب رہے بعض لا دین عناصر یا لبرل کہلوانے والے تو وہ اسے ایک جذباتی مسئلہ سمجھتے اور گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم كے قتل کی سزا کو شدّت پسندی قرار دیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شاتم و گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا مسئلہ جذباتی نہیں بلکہ خالص شرعی و علمی مسئلہ ہے، کیونکہ اسلام کا تو مزاج ہی معتدل ومتوازن ہے حتیٰ کہ اسلام تو اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اہلِ باطل کے معبودانِ باطلہ کو بھی گالی نہ دو تاکہ وہ عناد و ضد میں آکر تمہارے حقیقی معبودِ بر حق کو نہ گالی دینے لگیں ۔ چنانچہ سورة الانعام کی آیت:108 میں ارشادِ الٰہی ہے : ﴿ وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ1 كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ1 ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۱۰۸﴾ ’’ اور جن لوگوں کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں اُن کو بُرا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں اللہ کو بے ادبی سے بغیر سمجھے بُرا (نہ) کہہ بیٹھیں۔ اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (اُن کی نظروں میں) اچھے کر دکھائے ہیں پھر ان کو اپنے ربّ کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ اُن کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے۔‘‘ اب جو دین اپنا یہ مزاج پیش کرتا ہے اور اپنے پیروکاروں کی اس انداز سے تربیت کرتا ہے کہ دوسروں کے باطل معبودان کو بھی گالی نہ دو تو وہ اس بات کو کیسے پسند کرے گا کہ کوئی نبی ٔ برحق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑائے، استہزا کرے، سبّ و شتم کا رویہ اپنائے یا گستاخی اور توہین و تنقیصِ رسالت کا ارتکاب کرے؟اگر کوئی مسلمان اس فعل کا ارتکاب کرے تو وہ کافر و مرتد اور زندیق ہو جائے گا اور اگر کوئی کافر ایسا کرتا ہے تو وہ بھی اس جرمِ توہین و تنقیص کا مرتکب قرار پائے گا اور اسلامی حکومت پر واجب ہے کہ ایسے شخص کو سزائے موت دے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: |