Maktaba Wahhabi

65 - 111
سمجھتا ہوں کہ اسے قتل ہی کرنا چاہیے۔ اُنہیں عہد و ذمّہ امان اس لیے تو نہیں دیا گیا تھا کہ وہ جو جی چاہے کرتے پھریں۔اور شاتم و گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی دلیل کے طور پر اُنہوں نے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم وعہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعدد واقعات پیش کیے ہیں۔‘‘ [1] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے اور توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والا شخص کافر اور واجب القتل ہے اور اس کی توبہ و معافی کے باوجود اس پر سزائے موت کی شرعی حد نافذ کی جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو حتیٰ کہ حرم شریف میں پائے جانے کی شکل میں بھی قتل کردینے کے احکام جاری فرمائے تھے۔اور ابن خطل کو غلافِ کعبہ سے چمٹنا بھی قتل سے نہ بچا سکا تھا جیسا کہ کتبِ تاریخ و سیرت اس پر شاہد ہیں۔ اب رہا معاملہ اس کی توبہ و معافی کا تو یہ اس کے اور اس کے ربّ کے ما بین ہے ۔ہاں! اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود زندہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو معاف کر سکتے تھے بقول امام ابن تیمیہ: أَنَّ النبِی کَانَ لَه أَنْ یَّعْفُوَ عَمَّنْ شَتَمَه وَ سَبَّه فِي حَیَاتِه وَ لَیْسَ لِأمَّتِه أَنْ یَّعْفُوَ عَنْ ذٰلِكَ ’’یہ حق خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کہ اپنی زندگی میں سب و شتم کرنے والے جس شخص کو چاہیں معاف کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرنے والے کسی شخص کو معاف کرے ۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی بعض لوگوں کی توبہ و معافی کو قبول بھی فرمایا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی دوسرے کے لئے یہ روا نہیں ہے، کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخصّصات میں سے ہے اور آپ کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے بھی زیادہ واجب ہو گیا ہے لہٰذا توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قابو پانے کی شکل میں اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اس پر توہینِ
Flag Counter