Maktaba Wahhabi

64 - 111
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اور صریحاً قذف و تہمت لگائی وہ تمام علما کے اتفاق سے کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ توبہ کرلے تو اس سے سزائے قتل زائل نہیں ہوگی، کیونکہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانے کی سزا قتل ہے اور تہمت کی سزا توبہ کرنے سے ساقط نہیں ہوتی۔‘‘ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے سورة التوبۃ کی آیت نمبر12 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : طَعَنُوْا... أعَابُوهُ وَ انْتَقَصُوْهُ وَ مِنْهُنَا أُخِذَ قَتْلُ مَنْ سَبَّ الرَّسُوْلَ صَلَوَاتُ اللهِ وَ سَلَامُه عَلَىْهِ أَوْ مَنْ طَعَنَ فْي دِیْنِ الْاِسْلَامِ أَوْ ذَکَرَه بِنَقْصٍ[1] ’’یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عیب لگایا اور تنقیص و تحقیر کی اور اسی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کے قتل کی سزا اخذ کی گئی ہے۔ اسی طرح جس نے دین اسلام میں طعن کیا اور اسے تحقیر و تنقیص کے ساتھ ذکر کیا اس کی سزا بھی قتل ہے۔‘‘ ٭ اب رہے ائمہ و فقہا حنابلہ، تو خود امام احمد بن حنبل شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد و سزاے قتل کے قائل تھے خواه وہ مسلمان ہو یا کافر و ذمّی چنانچہ حنبل کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل )سے سنا ہے : "کُلُّ مَنْ شَتَمَ النَّبِي صلی اللہ علیہ وسلم أَوْ تَنَقَّصَه، مُسْلِماً کَانَ أَوْ کَافِراً. فَعَلَيْهِ الْقَتْلَ، وَ أَرَیٰ أَنْ یُّقْتَلَ وَ لَا یُسْتَتَاب" ’’ ہر وہ شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تنقیص و تحقیر کرے اس کی سزا قتل ہے وہ مسلمان ہو یا کافر ۔ اور میری رائے یہ ہے کہ اسے قتل کردیا جائے ،توبہ نہ کروائی جائے۔‘‘ وہ مزید فرماتے ہیں: ’’ جو کافر ذمّی عہد شکنی کرے یا اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز ایجاد کرے تومیں
Flag Counter