Maktaba Wahhabi

67 - 111
إِنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِي صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ مُسْلِمٍ أَوْ کَافِرٍ فَإنَّه یَجِبُ قَتْلُه هٰذا مَذْهَب عَلَيهِ عَامَّةُ أَهْلِ الْعِلْمِ [1] ’’ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی وہ مسلمان ہو یا کافر اس کا قتل واجب ہے اور اکثر و بیشتر علما کا یہی مسلک ہے۔‘‘ اس کا غیر مسلم ذمّی ہونا اس کی جان بخشی نہیں کروا سکتا۔ کیونکہ اپنے اس کرتوت سے وہ تحفظ کی ضمانت و ذمّہ کھو بیٹھا ہے جیسا کہ سنن نسائی کے حاشیہ پر امام سندھی لکھتے ہیں : اِنَّ الذمي إِذَا لَمْ یَکُفَّ لِسَانَه عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِه فَلَا ذِمَّةَ لَه فَیَحِلُّ قَتْلَه [2] ’’ کوئی ذمّی شخص جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان درازی سے بازنہ آئے تو اس کا معاہدہ و ذمّہ ختم اور اس کا قتل حلال و جائز ہو جاتا ہے۔‘‘ انہی خیالات کا اظہار امام خطابی نے اپنی کتاب معالم السنن میں کیا ہے اور اسے ہی امام مالک و شافعی اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا قول بتایا ہے ۔ اور یہ بھی ذمّی کے سلسلہ میں ہے جبکہ مسلمان کے قتل پر تو اُنہوں نے اجماع نقل کیا ہے ۔ غرض گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی عقوبت و سزا کے بارے میں بعض ’روشن خیال‘ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے پھررہے ہیں کہ اس کی سزا قتل نہیں،کیونکہ اس کا آغاز ہی عباسی دور میں ہوا تھا ، اور یہ كہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، یہ آزادیٔ صحافت کے بھی منافی ہے۔اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو بڑے رحم دل بلکہ رحمۃ للعالمین تھے ،اپنے خون کے پیاسوں کو بھی معاف فرمادیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو قتل کرنے کا کیسے حکم فرماسکتے ہیں؟یہ اور اسی قسم کے تمام اعتراضات و اشکالات پیچھے ذکر كیے گئے دلائلِ قرآن و سنت سے رفع ہوگئے۔ وَلِلهِ اْلحَمْدُ وَلَه الـْمِنَّةُ
Flag Counter