Maktaba Wahhabi

61 - 111
قیاس اسی طرح علامہ موصوف نے شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واجب القتل ہونے کے دلائل میں سے قرآن و سنت کی نصوص ، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماعِ تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے تذکرہ کے علاوہ اجماعِ امت کے سلسلہ میں ائمہ کی عبارات بھی پیش کی ہیں اور آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص کے واجب القتل ہونے پر اعتبار و قیاس سے بھی استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ کئی قیاسی وجوہات بھی ناموسِ رسالت پر حرف گیری کرنے والے شخص کے قتل کی متقاضی ہیں اور پھر اُنہوں نے دس وجوہات ذکر کی ہیں اور آخر میں متعلقہ تمام شکوک و شبہات کا اِزالہ بھی فرمایا ہے اور یہ موضوع تقریبًا پچاس صفحات پر مشتمل ہے ۔ [1] فقہی مکاتبِ فکر زیرِ بحث مسئلہ میں چاروں معروف فقہی مکاتبِ فکر کے ائمہ و اصحاب کی آرا و افکار کا کھوج لگائیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمان شاتم رسول کے واجب القتل ہونے کے بارے میں تو حنفیہ سمیت ، تمام فقہاے کرام کا اتفاق پایا جاتا ہے ، تاہم بعض فقہا احناف عام ائمہ و فقہا کی طرح ذمّی شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی رائے نہیں رکھتے لیکن ان کے نزدیک بھی جس طرح کسی تعزیر والے گناہ (مثلاً جماع فی غیر القبل) کا بار بار ارتکاب کرنے والے شخص کو امام و قاضی مصلحتاً قتل کرواسکتا ہے اور اِسے شرعی حد کے طور پر قتل کروانا نہیں بلکہ سیاسۃً قتل کروانا کہا جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم ذمّی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار گالی گلوچ کرے تو اسے بھی سیاسۃً قتل کروایا جا سکتا ہے ۔[2]اس مسئلہ میں حنفی فقہا کے کامل موقف کے لئے بھی محدث، اگست 2012ء میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کی طرف ر جوع مفید
Flag Counter