أَعْظَمُ" ’’میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے ایسے آدمی کے قتل کیے جانے میں اختلاف کیا ہو، لیکن اگر گالی دینے والا کافر و ذمّی ہو تو اس کے بارے میں اختلاف ہے ۔‘‘ 8. امام مالک بن انس فرماتے ہیں: ’’یہود و نصاریٰ میں سے جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اسے قتل کیا جائے گا، سوائے اس کے کہ وہ مسلمان ہو جائے ۔اسی طرح ہی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے،جبکہ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر کوئی ذمّی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اُنہوں نے دلیل کے طور پر کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا واقعہ ذکر کیا ہے ۔‘‘ ان ائمہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "وَتَحْرِیْرُ الْقَوْلِ فِیْهِ: أَنَّ السَّابَّ إِنْ کَانَ مُسْلِماً فَإنَّه یُکَفَّرُ وَ یُقْتَلُ بِغَیْرِ خِلَافٍ وَهُوَ قَوْلُ الْآئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَ غَیْرِهِمْ وَ قَدْ تَقَدَّمَ مِمَّنْ حَکَیٰ الْاِجْمَاعُ عَلى ذَلِكَ اِسْحَاقُ ابْنُ رَاهْويَهِْ وَ غَیْرُه، وَ إِنْ کَانَ ذِمِّیّاً فَإنَّه یُقْتَلُ أَیْضاً فِي مَذْهَبِ مَالِكٍ وَ أَهْلِ الـْمَدِیْنَةِ وَ هُوَ مَذْهَبُ أَحْمَدَ وَ فُقَهَاءِ الْحَدِیْثَ" ’’ اس مسئلہ میں فیصلہ کن اور طے شدہ بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا اگر مسلمان ہو تو اسے کافر قرار دیتے ہوئے بلا اختلاف قتل کیا جائے گا۔یہ ائمہ اربعہ و غیرہ کا قول ہے اور یہ بات گزر چکی ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ و غیرہ نے اس پر اجتماع نقل کیا ہے ۔ اور اگر گالی دینے والا ذمّی ہو تو وہ بھی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور اہلِ مدینہ کے مذہب میں قتل کیا جائے گا اور امام احمد و فقہاے حدیث کا بھی یہی مذہب ہے ۔‘‘[1] |