قتل میں وارث معاف بھی کرسکتے ہیں اور ارتداد کی توبہ بھی ہے مگر اس کے قتل کا یہ سخت حکم اس کے جرمِ توہین رسالت اور گستاخی ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے تھا کہ وہ اپنے شعروں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ وشتم کیا کرتا تھا۔ [1] 7. جن لوگوں کو توہینِ رسالت کے جرم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کروایا تھا، انہی میں سے ابن الزِّبَعْرَیٰ بھی ہے جیسا کہ حضرت سعید بن مسیّب رحمۃ اللہ علیہ کی مرسل روایت میں آیا ہے اور ان کی مراسیل کے انتہائی جید ہونے پر اہلِ علم کو کوئی کلام نہیں۔ اسی طرح امامِ سیرت و مغازی ابن اسحٰق نے لکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے تمام توہین و ہجو کرنے والوں اور ناموسِ رسالت کے درپے ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے والوں کو قتل کروادیا تھا۔تاہم یہ ابن الزِّبعریٰ اور ہبیرہ بن ابی وہب نجران کی طرف بھاگ نکلے تھے اور بالآخر یہ توبہ تائب ہوا اور مسلمان ہوکر لوٹا مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جرمِ توہینِ رسالت کی وجہ سے اس کا خون رائیگاں قرار دے دیا اور ابن ہبیرہ نجران میں حالتِ کفر و شرک میں ہی مرگیا۔[2] عدمِ استطاعت پر گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں ایک ایک کرکے قتل کروادیا گیا تھا اور یہ بھی قانونِ قدرت ہے کہ جسے اہلِ ایمان اس کی اہانت و گستاخی کی سزا نہ دے سکیں تو اُس سے خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقام لیتا ہے اور وہ ہی کافی ہوجاتا ہے جیسا کہ کسریٰ ایران نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوبِ گرامی کو چاک کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے پورے خاندان کو ملیا میٹ کردیا اور اس کی حکومت تو کیا رہتی، اچھائی سے نام لیوا بھی کوئی نہ بچا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ﴿ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۰۰۳﴾ کی بشارت کو ہر جگہ سچ کر دکھایا اور اپنے وعدے﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَۙ۰۰۹۵﴾ کو بھی پورا کیا۔ |