6. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے کی سزا قتل ہونے کی ایک دلیل عبد اللہ بن خطل کا واقعہ بھی ہے جو کہ صحیح بخاری و مسلم و غیرہ کے حوالے سے ذکر ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسرِ اقدس پر لوہے کا خود پہنا ہوا تھا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمایا، البتہ چند لوگوں کے نام لے لے کر فرمایا: (( اُقْتُلُوْهُمْ وَاِنْ وَجَدْتُّمُوْهُمْ تَحْتَ أَسْتَارِ الْکَعْبَةِ)) [1] ’’ اِنہیں قتل کردو ...چاہے تم انہیں غلافِ کعبہ سے چمٹے ہوئے ہی کیوں نہ پاؤ ۔‘‘ اور اُنہی میں سے ایک یہ ابن خطل بھی تھا۔ایک آدمی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ خبر پہنچائی کہ ابن خطل غلافِ کعبہ سے چمٹا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ اسے وہیں قتل کردو۔ چنانچہ حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ گئے اور اُنہوں نے اس کا پیٹ چاک کردیا۔ اس ابن خطل کے کئی جرائم تھے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صدقہ کے مال کا انچارج بنایا اور خدمت کےلئے ایک ساتھی بھی مہیّا کیا۔ یہ اپنے اس خادم ساتھی پر ناراض ہوا اور اسے قتل کردیا۔ ٭ اب اسے اپنے اس جرمِ قتل کی پاداش میں پکڑے اور قتل کیے جانے کا خوف لاحق ہوا لہٰذا مرتد ہوگیا۔ ٭ جاتے ہوئے صدقے کے اونٹ ہانک کرلے گیا۔ ٭ یہ شاعر تھا اور اپنے اشعار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا کرتا تھا۔ ٭ یہ اپنی کنیزوں سے کہا کرتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو پر مبنی میرے ان اشعار کو لوگوں کے سامنے گا کر سنایا کرو۔ اس کے ان جرائم میں سے قتل ، ارتداد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و ہجو تینوں ہی اسے واجب القتل بناتے تھے، لیکن اسے خصوصاً صرف توہینِ رسالت کی وجہ سے قتل کردیا گیا تھا، کیونکہ |