Maktaba Wahhabi

54 - 111
تھا۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’ہمیں اہلِ علم و فقہ اور اہلِ تجربہ نے اپنے مجرب و آپ پیتے واقعات بتائے ہیں کہ ہم نے شام کے ساحلی شہروں اور قلعوں کا محاصرہ کیا اور اندر رومی قلعہ بند تھے۔ کبھی کبھی ہم کسی شہر یا قلعہ کا مہینہ بھر یا اس سے بھی زیادہ عرصہ محاصرہ کیے رکھتے مگر کامیابی نہ ہوتی حتیٰ کہ ہم مایوس ہونے لگتے۔ اسی اثنا میں قلعہ میں محصور لوگوں کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی خبر ملتی کہ وہ ناموسِ رسالت کے درپے ہوئے ہیں تو ہمیں اس کے بعد دو ایک دن میں جلد ہی اور آسانی سے فتح حاصل ہوجاتی بلکہ ہم جب محصور لوگوں کی طرف سے شانِ رسالت میں گستاخیوں کی خبر سنتے تو اسے فتح کے لئے پیشگی خوشخبری شمار کرتے تھے۔ اگرچہ اس سے ہمارے دل ان کے خلاف غیظ و غضب سے بھی بھر جاتے تھے۔ اسی طرح ہمارے بعض ثقہ احباب نے ہمیں بتایا ہے کہ اہلِ مغرب مسلمانوں کے ساتھ بھی نصاریٰ کے مقابلے میں ایسی ہی صورتِ حال رونما ہوتی ہے اور یہ قانونِ قدرت ہے کہ وہ کبھی تو اپنے دشمنوں کو خود ہی عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے اور کبھی اپنے مؤمن بندوں کے ہاتھوں اُنہیں سزا دلواتا ہے۔‘‘[1] اہلِ سیرت و سوانح کے یہاں معروف و مشہور واقعہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن خطل کی دو گویّا کنیزوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایاتھا جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں لکھے ہوئے ابن خطل کے شعر گایا کرتی تھیں ، ان میں سے ایک کا نام فرتنیٰ اور دوسری کا نام قرینہ یا ارنب تھا۔ اور ان میں سے ایک کو قتل کردیا گیا جبکہ فرتنیٰ ایمان لے آئی اور اسے امان دے دی گئی اور وہ عہدِ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک زندہ رہی۔ [2] ان دو کنیزوں کے قتل کے حکم میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ اُنہیں ان کے جرمِ توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا تھا۔
Flag Counter