بہت ہی غضبناک کردیا تو میں نے عرض کیا: اِئْذَنْ لِي یَا خَلِیْفَةَ رَسُوْلِ الله صلی اللہ علیہ وسلم ! أَضْرِبُ عُنُقَه ’’ اے خلیفہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔‘‘ میری یہ بات سن کر اُن کا غصہ کافور ہوگیا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور اندر چلے گئے۔ پھرایک آدمی بھیج کر مجھے بلایا اور فرمایا: ’’ ابھی ابھی تم نے کیا کہا؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’ مجھے اجازت دیجیےکہ میں اس کی گردن ماردوں۔‘‘اُنہوں نے پوچھا: ’’ اگر میں حکم دے دیتا تو کیا تم ایسا کر گزرتے ؟ ’’میں نے عرض کیا: ’’ جی ہاں! ‘‘ تب اُنہوں نے فرمایا: لَا وَ اللهِ! مَا کَانَتْ لِبَشَرٍ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم[1] ’’ نہیں، اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ مقام دوسرے کے لئے نہیں ہے ۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ امام ابو داؤد، اسماعیل القاضی اور قاضی ابو یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہم و غیرہ علما کی ایک جماعت نے اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے مسلم و کافر ہر شخص کے قتل کے جواز کی دلیل اخذ کی ہے جو کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہے اور لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے کے قتل کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ تاکید ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت وفات کے بعد تو زندگی سے بھی بڑھ کرہے ۔[2] 5. اہلِ علم نے شاتم و گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالت کے درپے ہونے والے بدنصیب کی سزائے قتل کی پانچویں دلیل کے طور پر وہ حدیث ذکر کی ہے جو کہ سنن ابی داؤد میں صحیح سند کے ساتھ ،اسی طرح سنن نسائی وغیرہ میں وارد ہوئی ہے کہ فتح مکہ کے دن عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گئے۔ عثمان اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا: |