Maktaba Wahhabi

49 - 111
يَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا1ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۶۳﴾ ’’ مؤمنو! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ بےشک اللہ کو وہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں تو جو لوگ ان(پیغمبر) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو ۔‘‘ اس آیت میں وارد لفظ فِتْنةکی تفسیر کفر و ارتداد سے بھی کی گئی ہے ۔[1] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآنِ کریم کے ان پانچ مقامات کے علاوہ بھی تین مقامات و آیات جملہ آٹھ مقامات سے توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے کے کفر پر استدلال اور وجہ و طریقہ استدلال ذکر کیا ہے، تفصیل کے لئے اُن کی معروف کتاب ’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘(صفحہ21تا60)ملاحظہ کریں۔ توہینِ رسالت کے مرتکب کا قتل؛ احادیثِ شریفہ کی روشنی میں تحفظِ ناموسِ رسالت کے لئے جس طرح قرآنِ کریم کی متعدد آیات اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے آدمی کو قتل کردینا ضروری ہے، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی و گستاخی کرنے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استہزا کرنے والوں کے واجب القتل ہونے اور ان کے خون کے رائیگاں جانے کا پتہ بکثرت احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی چلتا ہے۔ 1. پہلی حدیث تو سنن ابو داؤد میں اس نابینا شخص والی ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والی ایک یہودی عورت کو گلا دبا کر قتل کردیاتھا اور صبح جب معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا خون رائیگاں قرار دے دیا۔[2]
Flag Counter