غرض یہ آیت نازل تو بعض خاص لوگوں کے بارے میں ہوئی ہے، لیکن اس کا حکم عام ہے کہ جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن اور شانِ رسالت میں گستاخی کرے گا، وہی اس آیت کا مصداق ٹھہرے گا، جیسا کہ اہلِ علم نے کہاہے۔[1] 4. سبّ و شتم اور استہزا و مذاق یا کسی بھی انداز سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں، مقامِ نبوت پر اُنگلی اٹھانے والوں اور توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کے کفر کی چوتھی دلیل سورة الاحزاب کی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا۰۰۵۷ وَ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِيْنًا۰۰۵۸﴾ ’’ جو لوگ اللہ اور اُس کے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں،اُن پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کےلئے اُس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اور جولوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت) سے جو اُنہوں نے نہ کیا ہو اِیذا دیں تو اُنہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی اطاعت سے اور اذیّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اذیت سے ملاکر بیان فرمایا ہے اور جو شحص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دے، اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی وہ کافر حلال الدم ہے۔ دوسرے یہ کہ ناموسِ رسالت پر حرف گیری کرنے والے کے لئے دنیا و آخرت کی لعنت اور ذلّت ناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جو ایسے شخص کے کفر کی واضح دلیل ہے، کیونکہ ذلت ناک عذاب قرآنِ کریم میں صرف کفار کے لئے ہی آیا ہے۔ [2] یہی سزا ان لوگوں کے لئے بھی ذکر کی گئی ہے جو واقعۂ افک کے بعد بھی نبی |