رسول سے مقابلہ کرتا ہے۔‘‘ بتا رہے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے والا اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محادّ و دشمن ہے اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محاد و محارب اور اذیت رساں کافر ہوتا ہے، کیونکہ یہاں اس کے لئے یہ سزا طے پائی ہے : ﴿ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيْهَا1 ذٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيْمُ۰۰۶۳﴾ ’’ اس کیلئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا یہ بڑی رسوائی ہے۔‘‘ 3. شاتمِ رسول اور گستاخِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفر کی تیسری دلیل سورة التوبۃ ہی میں ہے جن میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ يَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ1 قُلِ اسْتَهْزِءُوْا1ۚ اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ۰۰۶۴ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ1 قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ۠۰۰۶۵ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ1 اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىِٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآىِٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ۰۰۶۶﴾ ’’منافق ڈرتے رہتے ہیں کہ ان (کے پیغمبر) پر کہیں کوئی ایسی سورت(نہ)اُتر آئے کہ ان کے دل کی باتوں کو ان (مسلمانوں) پر ظاہر کر دے۔ کہہ دیں کہ مذاق کئے جاؤ جس بات سے تم ڈرتے ہو اللہ اس کو ضرور ظاہر کر دے گا۔ اور اگر آپ ان سے (اس بارے میں) دریافت کریں تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہیں: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے؟ بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو، اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کر دیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دیں گے،کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔‘‘ یہ اس بات پر صریح نصّ ہے کہ اللہ تعالیٰ ، اس کی آیات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اِستہزا و مذاق اُڑانا کفر ہے اور سبّ و شتم تو مذاق اُڑانے سے بھی بدترین فعل ہے لہٰذا سنجیدگی سے ہو یا ازراہِ مزاح، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ناموسِ رسالت پر اُنگلی اٹھانے والا کافر ہوجاتا ہے۔ |