Maktaba Wahhabi

20 - 111
اور ڈالر کے غیر مستحکم ہونے کے باعث عرب ممالک میں سرمایہ کواسلامی بنکوں میں رکھنے کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1963ء میں مصر کے ایک قصبے ’مت غمر ‘سے شروع ہونے والی اسلامی بنکاری آج عالمی سطح پر نمایاں مقام رکھتی ہے۔ دنیا کے ستائیس مسلمان جبکہ پندرہ غیر مسلم ممالک میں شرعی اُصولوں پر بنکاری کا نظام موجود ہے۔ عالمی سطح پر اسلامی مالیاتی اداروں کے پاس چودہ سو ارب ڈالر کے ا ثاثہ جات موجود ہیں جن میں بیس فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تیل کی دولت اور مغربی بنکوں میں سرمایہ محفوظ کرنے کے رحجان میں کمی نے اسلامی بنکاری کو مزید اہم بنا دیا ہے۔ اسلامی سکالرز عالمی سطح پر برپا ہونےوالے مالیاتی بحران کی بڑی وجہ سود کے سہارے قائم عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیتے ہیں۔ اسلامی معاشی ماہرین مغربی ممالک میں شرح سود میں کمی کو بنیاد بنا کر بلاسود بنکاری کے قابل عمل ہونے کی دلیل دیتے ہیں۔ نفع و نقصان کی بنیاد پر کام کرنے والا اسلامی نظام معیشت دن بدن مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشی ماہرین اسلامی طرزِ معیشت کے فروغ سے پریشان دیکھائی دیتے ہیں۔ اسلام کے خلاف اقدامات اور توہین آمیز واقعات کی بڑی وجہ بھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ اور اسلامی طرز معاشرت و معیشت کا فروغ ہے!! توہین آمیز واقعات کی وجوہات کو سمجھنے کے بعد اب ہم مغربی ممالک میں پیش آنے والے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح بعض شرپسند عناصر ایک منصوبہ بندی کے تحت اسلام، نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی توہین کر کے دنیا بھر میں اسلام کے فروغ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان واقعات کو ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان ان مذموم حرکتوں سے آگاہ رہیں اور ان شرپسند حلقوں کی پہچان ہو سکے کہ جو اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ جب ہم ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ مغربی ممالک کے حکمرانوں سے لیکر مذہبی پیشواؤں تک، عسکری حلقوں سے لیکر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں تک اور فنکاروں سے لیکر تدریس و ادب سے منسلک مصنفوں اور شعرا تک ہر
Flag Counter