Maktaba Wahhabi

109 - 111
بلا شبہ مولانامحمد عبداللہ صاحب پرانے دور کی یاد گار تھے۔ اُنہوں نے نیک لوگوں کا ساتھ پایا۔ وہ جس دور میں پلے بڑھے اور جس ماحول میں تعلیم و تربیت کی منزلیں طے کیں، اسے سنہری دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں مختلف تحریکیں اور جماعتیں میدان کارِ زار میں سرگرمِ عمل تھیں۔ ہندو سکھ عیسائی اور مسلمان اپنے اپنے مذہب کی اِشاعت میں لگے ہوئے تھے۔ اور اس سلسلے میں وہ ایک دوسرے سے مناظرے اور مباحثے بھی کرتے تھے اور دوسری طرف مل کر انگریزسے آزادی کے لئے کام بھی کر رہے تھے۔ مولانا محمدعبداللہ صاحب نے ان حالات کا بغور جائزہ لیا اورپھر ان کا علاقہ بٹالہ بھی قادیانی فتنہ کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ان حالات میں مولانا عبداللہ صاحب نے اِسلام کی نشر و اشاعت کے لئے اہل حدیث اسٹیج سے کام کرنا شروع کیا۔ قادیانی مذہب کے خلاف انہوں نے تقریر و تحریر سے کام کیا اور دیگر مذاہبِ باطلہ کے خلاف بھی انہوں نے زبان و بیان سے جہاد کیا۔ تقسیم ملک سے پہلے آپ ’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘ سے منسلک رہے جس کے ناظم اعلیٰ مولانا ثناء اللہ اَمر تسری رحمۃاللہ علیہ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب 24/جولائی 1948ء کو ’مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان‘کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس سے منسلک ہو گئے اور تاحیات ’مرکزی جمعیت اہل حدیث‘ کے ساتھ ہی رہے۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ اَمر تسری، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃاللہ علیہم ان پر بہت اعتماد کیا کرتے تھے اور ان اَکابرین جماعت کے ساتھ مل کر مولانامحمد عبداللہ صاحب نے جماعت کی تعمیر و ترقی کے لئے دن رات کام کیا۔ مولانا محمد عبداللہ گورداس پوری دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے۔ جن حضرات کے ساتھ ان کا ذرا سا بھی تعلق رہا ،انہیں یاد رکھتے۔ اپنے اَساتذہ کرام کا ذکر خیر عقیدت سے کرتے ، چھوٹوں پر شفقت فرماتے۔فیصل آباد تشریف لاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ دوستوں سے ضرور ملاقات کی جائے۔ ان کی خواہش پر کئی بار ہم ان کے اُستاد زادے حافظ سلیمان مرحوم کو ان کے گھر سمن آباد جا کر ملے۔ اس موقع پر ہمارے مرحوم دوست علی اَرشد چودھری اپنی گاڑی سمیت ہمراہ تھے۔ مولانامحمد عبداللہ صاحب بذلہ سنج اور باغ و بہار طبیعت کے انسان تھے۔ وہ اپنی گفتگو اور شرینی گفتار سے خوب محظوظ کرتے۔ ایک بار فیصل آباد تشریف لائے اور مجھے ٹیلی فون کیا۔ حال اَحوال پوچھ کر کہنے لگے :’’اَرشد مرشد کہاں ہیں؟’‘ میں نے عرض کیا:اس وقت تو وہ گھر پر سو رہے ہوں گے، نمازِ ظہر کے بعد ہی شہر آئیں گے۔ پھر پوچھنے لگے:’’ حکیم عبدالستار کے بیٹے حافظ حبیب
Flag Counter