Maktaba Wahhabi

107 - 111
گیا میں نے ان کی دعوت قبول کر لی، ان میں سے ایک پھر کہنے لگا کہ مولوی صاحب آپ تو پان بھی کھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں پان کھاتا ہوں، لیکن جب پولیس والوں نے تلاشی لیتے وقت میرا پان نکال لیا تو میں نے اپنے نفس سے کہا تھا کہ دیکھو یہاں کتنی پابندی ہے، اب پان مت مانگنا، کہنے لگے ان سے مانگیں کیوں؟ ہمارے دونوں بھائیوں کے سولہ پان روزانہ گھرسے آتے ہیں۔ اب آج سے آٹھ پان آپ کے بھی آیا کریں گے ۔ میں ایک ماہ اور تین دن ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں رہا اور ان نوجوانوں کا صبح کا ناشتہ ، دوپہر کو کھانا، بعد نماز عصر چائے، رات کا کھانا آتا اور بہت پُرتکلّف کھانا ہوتا۔ جیل میں میرے ساتھ ملاقات کرنے جو بھی آتا، میں کہتا کہ ابھی دو چار ماہ میری ضمانت نہ کروانا، کیونکہ یہاں بہت آرام ہے۔ لیکن آخر کار حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمۃاللہ علیہ نے میاں محمود علی صاحب قصوری رحمۃاللہ علیہ کو کہہ کر میری لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت کروا دی۔ اسی طرح پوری زندگی اسی انداز سے گزری ہے،یہ ایک مختصر سا تعارف ہے۔‘‘[1] یاد رہے کہ تحریک ختم نبوت کی اب پندرہ جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ الحمد للہ کسی دور میں نصرت ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں لاہور سے فیصل آباد چلتی تھیں۔ فیصل آباد میں اس کمپنی کا بس اڈا کارخانہ بازار کے باہر ہوا کرتا تھا اور یہ بس کمپنی مرزائیوں کی تھی ۔ ایک بار مولانامحمد عبداللہ صاحب لاہور سے نصرت ٹرانسپورٹ کی بس کے ذریعے لائل پور آئے۔ رات کو اُنہو ں نے دورانِ تقریر تذکرہ کیا کہ میں لاہور سے نصرت بس پر بیٹھ کر ساڑھے تین گھنٹہ میں لائل پور پہنچا ہوں۔ قادیانیوں نے اس بات پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ مولانا عبداللہ صاحب پیشی پر عدالت میں حاضر ہوئے اور اپنا بیان دیا۔ عدالتی کارروائی کے بعد اُنہوں نے کہا کہ آئندہ پیشی پر میں یہ بھی بتاوں گاکہ نصرت بس کمپنی پر بیٹھ کر مجھے کتنا لطف آیا اور سفر کتنا آرام دہ رہا، ان کی یہ بات بھی مرزائیوں کو چبھ گئی۔ اب ان کو کسی نے مشورہ دیا کہ اس مولوی سے جان چھڑا لو، ورنہ یہ آئندہ تمہیں عدالت میں بڑا رسوا کرے گا۔ لہٰذا مرزائیوں نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی بھرپور کردار ادا کیا اور بورے والا کی مذہبی قیادت میں ان کا کام اور نام نمایاں تھا۔ 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی مولانا محمدعبداللہ صاحب
Flag Counter