کہنے پر خطبہ جمعہ دے دیتا ہوں۔ میں ابھی وہاں ہی بیٹھا تھا ایک قیدی اپنے سر پر پانی کا ٹین رکھ کر لا رہا تھا اور صابن دھنیا کا تیل بھی ساتھ تھا، اس کے بعد ایک قیدی کپڑوں کا نیا جوڑا اور اس کے ساتھ 376کی ململ کی پگڑی، کرتا، بنیان، ملتانی لاچہ ، جرابیں وغیرہ لے کر آ گیا۔ پھر اس کے بعد ایک اور قیدی آ گیا اور اس کے ہاتھ میں ایک بڑی ٹرے تھی جس میں دو پراٹھے، تین انڈے ، دہی، مکھن اور چائے تھی۔ کہنے لگا کہ یہ آپ کا ناشتہ ہے۔ میں نے کلرک سے کہا کہ دیکھو جب میں جیل میں داخل ہونے لگا تو آپ کے پولیس والوں نے میری مکمل تلاشی لی اور پان بھی نکال لیا، لیکن وہ میرے سینے سے قرآن نہ نکال سکے ، اور یہ سب قرآن کی برکت سے ہے۔ میں نے غسل کیا، نئے کپڑے پہنے، پھر ناشتہ کیا تو جمعہ کی اذان ہو گئی، میری عمر اس وقت تقریباً چالیس سال تھی، جیل کے تمام قیدی اور افسران بڑی تعداد سے جمعہ کی نمازپڑھنے کے لئے آئے۔میں نے حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃاللہ علیہ سے سنا تھا کہ سورہ یوسف جیل میں پڑھنے کا بڑا مزا آتا ہے۔ میں نے خطبہ جمعہ میں ﴿رب السجن أحب إلی مما یدعوننی إليه﴾ کی تشریح کی، اللہ تعالیٰ نے اس قدر توفیق بخشی کے پونے دو گھنٹے خطبہ جمعہ دیا جو اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ قیدی نعرے مار رہے تھے اور سورہ یوسف کا ترجمہ اور تفسیر سن کر رو رہے تھے، جیل کی فضا نعرہ تکبیر سے گونج رہی تھی۔ اب جیل کے افسران پریشان تھے کہ قیدی کہیں بغاوت نہ کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے عزت عطا کر دی، اور یہ سب کچھ قرآن کی برکت ہے۔جب نماز جمعۃ المبارک ادا کی تو میرے پیچھے ملتان کے دو نوجوان رئیس زادے بھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے اور وہ کسی کے قتل کے جرم میں قید تھے اور انہوں نے اپنا کھانا گھر سے منظور کروایا ہوا تھا۔ وہ بڑے احترام سے ملے اور پوچھا مولانا کہاں سے آئے ہیں؟ اور کس سلسلہ میں جیل میں آ گئے؟ میں نے کہا کہ میں بورے والا کی مرکزی جامع مسجد اہلحدیث کا خطیب ہوں اور خانیوال میں ختم نبوت کے موضوع پر ایک تقریر کی اور جس میں کھل کر مرزائیت کی تردید کی ہے۔ وہاں کا تھانیدار مرزائی تھا اور رپورٹر بھی مرزائی۔ انہوں نے رات ہی کو میرے وارنٹ گرفتاری جاری کروا کر مجھے گرفتار کروا لیا، اگلے دن انتظامیہ جلسہ نے ضمانت کی درخواست دی، لیکن اس وقت پتہ چلا کہ ملتان کا سیشن جج بھی مرزائی ہے اور اُس نے میری ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جس کی وجہ سے پولیس مجھے آج ہی جیل لائی ہے او ریہ میری اور آپ کی ملاقات کا سبب بنا ہے۔ وہ دونوں نوجوان حضرت مولانا محمد علی جالندھری کے مقتدی تھے۔ وہ کہنے لگے مولوی صاحب آپ کھانا ہمارے ساتھ کھایا کریں ۔ہمارا کھانا گھر سے آتا ہے میں نے انکار کیا، لیکن ان کا اصرار غالب آ |