Maktaba Wahhabi

104 - 111
پیارے اسلوب میں اکابرین جماعت کا تذکرہ کرتے تھے۔ چند سال پہلے انہوں نے شیخ الاسلام، فاتح قادیان، مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمۃاللہ علیہ کے بارے ہفت روزہ اہل حدیث لاہور میں متعدد مضامین لکھے تھے اور ان میں حضرت شیخ الاسلام کی زندگی کے بعض گوشوں کو اجاگر کیا تھا۔ ضرورت ہے کہ مولانا عبداللہ صاحب کے تمام مضامین کو یکجا کر کے شائع کر دیا جائے۔ اس سے جماعتی تاریخ کے بہت سے واقعات محفوظ ہو جائیں گے۔ تحریکی خدمات مولانا محمدعبداللہ صاحب نے سیاست میں تو زیادہ حصہ نہیں لیا، البتہ مذہبی تحریکوں میں سرگرم عمل رہے۔ فتنہ مرزائیت کے خلاف اُنہوں نے قیام پاکستان سے پہلے بھی خوب کام کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی وہ قادیانیوں کے خلاف پیش پیش رہے۔ اس راہ میں اُنہیں مصائب و آلام سے بھی دو چار ہونا پڑا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ وہ ہر موقع پر ثابت قدم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور انہوں نے دھڑلے سے قادیانی نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کے ڈھول کا پول کھولا۔ مولانا عبداللہ صاحب نے 1935ء میں جب وہ مولانا عطاء اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں زیر تعلیم تھے توقادیانیت کے خلاف پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا ۔پون صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مولانامحمد عبداللہ سال میں ایک بار اس خطبے کی تجدید کرتے تھے۔ مولانا محمدعبداللہ صاحب پہلی بار 1939ء میں جیل گئے تھے۔ اُنہوں نے بٹالہ سے چھ میل دور دیال گڑھ کے قریبی گاؤں ’ہرسیاں‘میں مرزائیوں کے خلاف تقریر کی تھی۔ اس کی پاداش میں اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور ایک ہفتے بعد ان کی ضمانت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی مولانا محمدعبداللہ صاحب سرگرم عمل رہے اور انہیں کراچی جیل میں ایک ماہ گزار نا پڑا۔ 1955ء میں اُنہوں نے خانیوال میں تقریر کی اور ختم نبوت کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ اس ضمن میں قادیانی مذہب بھی زیر بحث لائے۔ اس جرم میں اُنہیں جیل بھیج دیا گیا اور ایک ماہ دس دن بعد ضمانت ہوئی۔ مولانامحمد عبداللہ اس دور کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بٹالہ اور امر تسر قریب قریب ہونے کی وجہ سے اکثر فاتح قادیان کی زیارت و ملاقات ہوتی رہی اور ان کے بیانات اور مناظرات دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ تقریباً زندگی کا گیارہ سالہ بہترین دور اُن کی رفاقت اور قرب میں بسر کرنے کا موقع ملا۔ الحمد للہ!‘‘
Flag Counter