تقریر کے اَلفاظ و انداز کی اَثر پذیری سے ہر آنکھ پرنم تھی اور ہر دل تڑپ رہا تھا۔ نمازِ عید کے بعد مولانا اپنی رہائش گاہ پر تشریف لائے اور گائے کی قربانی میں مصروف ہو گئے ۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حاجی محمد عاشق ریڑھی لئے کھڑے ہیں، جس پر ایک بوری آٹے کی اور ایک بوری چاولوں کی ہے۔ کہا:یہ حقیر سی خدمت قبول فرمائیے۔ ساتھ ہی پانچ سو روپے نقد عنایت کئے۔ یہ بہت بڑی مدد تھی جو اس وقت اُنہوں نے فرمائی اور لٹے پٹے قافلے کو سہارا دیا۔‘‘ [1] مولانا محمدعبداللہ صاحب کچھ عرصہ رائے ونڈ میں قیام پذیر رہے اور کچھ عرصہ جامع مسجد فریدیہ اہل حدیث قصور میں خطابت کے فرائض سراَنجام دیئے۔ 1949ء میں آپ جماعت اہل حدیث بورے والا کے اِصرار پر بورے والا تشریف لے آئے۔ اُنہوں نے بورے والا کی جامع مسجد اہل حدیث میں جو پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، اس میں سورۃ العصر کی تفسیر بیان کی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ ان دنوں یہ مسجد بہت چھوٹی تھی، مولانامحمد عبداللہ صاحب کی کوششوں سے اب بہت وسیع ہو گئی ہے۔ اور اسے چند سال پہلے اَز سر نو خوب صورت تعمیر کیا گیا ہے۔ نیز بورے والا اور اس کے گر دو نوا ح میں اہل حدیث کی ایک در جن سے زا ئد مسا جد تعمیر ہو چکی ہیں۔ مولانا محمدعبداللہ صاحب بلند آہنگ خطیب تھے۔ ان کے وعظ کی اثر آفرینی سے ہزاروں لوگ راہِ راست پر آ چکے ہیں۔ وہ عام فہم انداز میں بڑی پیاری گفتگو کرتے اور علم و حکمت کے موتی بکھیرتے چلے جاتے۔ عالم پیری میں بھی ان کی خطابت کی بڑی دھوم تھی۔ لوگ ان کا وعظ سننے دور دور سے دیوانہ وار چلے آتے۔ قرآنی خدمات اللہ تعالیٰ نے مولانا محمدعبداللہ صاحب کو علم و عمل کے ساتھ تفقہ فی الدین اور قرآن فہمی سے بھی خوب نوازا تھا۔ آپ نے نماز ِفجر کے بعد چار بار درسِ قرآن میں قرآن مجید کی مکمل تفسیر بیان کی۔ آپ صبح کے درسِ قرآن کے لئے باقاعدہ تیاری کر کے آتے تھے۔ مولانامحمد عبداللہ صاحب کا بیان ہے کہ |