Maktaba Wahhabi

100 - 111
ہوئے۔ والد کا اِسم گرامی حکیم امام الدین تھا۔ جو علماے کرام اور واعظین عظام کی عزت وتوقیر میں اس نواح میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ نیک اور صالح تھے۔ ان کا یہ بچہ کچھ بڑا ہوا تو اُنہوں نے اسے سرکاری سکول میں داخل کرا دیا۔ جہاں بچے نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔بعد اَزاں خالصہ ہائی اسکول بھاگووال میں داخل کرا دیا گیا۔ مولانا عبداللہ صاحب نویں جماعت کے طالب علم تھے کہ اُن کے علاقے میں ایک بہت بڑا تبلیغی جلسہ ہوا۔ وہ اس میں شریک ہوئے اور اُنہوں نے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امر تسری اور سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریریں سنیں۔ اُنہوں نے اس قدر تاثر لیا کہ سکول کی تعلیم چھوڑ کر دینی تعلیم کی طرف راغب ہو گئے۔ اُنہیں بٹالہ میں قائم مدرسہ دارالسلام میں داخل کرا دیا گیا۔ یہ مدرسہ وہاں کی انجمن خادم المسلمین کے زیر انتظام تھا اور اس میں حضرت مولانا عطاء اللہ شہید رحمۃاللہ علیہ جو اس علاقے کے جید عالم دین تھے، فریضہ تدریس اَدا کرتے تھے۔ ان نیک اور متقی عالم دین کو اگست 1947ء میں سکھوں نے شہید کر دیا تھا۔ یہ بزرگ عالم دین تفسیر،حدیث، منطق، صرف ونحو اور دیگر اسلامی علوم میں کامل درک رکھتے تھے۔ ان سے کئی طلبا نے اکتسابِ علم کیا اور پھر وہ نامور ہونے کے ساتھ نیک نام بھی ہوئے۔ مولانا عطاء اللہ شہید رحمۃاللہ علیہ کے شاگردوں میں مولانا عبدالعزیز سعیدی، مولانا اسماعیل ذبیح، مولانا عبدالعظیم انصاری، حافظ عبدالحق صدیقی اور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف جیسے علما کے نام ملتے ہیں۔ ہمارے ممدوح حضرت مولانا محمدعبداللہ صاحب بھی اسی یگانۂ روزگار عالم دین کے نہایت لائق اور چہیتے شاگردِ رشیدتھے۔ اُنہوں نے درسِ نظامی کی مکمل تعلیم مولانا عطاء اللہ شہید سے حاصل کی۔ ذہین طباع طالب علم تھے، ذہن رساپایا تھا جوپڑھتے ازبر ہو جاتا۔ نیک طینت اُستاد کو اپنے اس شاگرد پر ناز تھا اور وہ اسے اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے۔ مولانا عطاء اللہ شہید رحمۃاللہ علیہ کے صاحبزادے حافظ محمد سلیمان میرے نہایت پیارے بزرگ دوست تھے۔ وہ میرے قریبی محلہ میں ہی اقامت پذیر تھے، ان سے اکثر ملاقات رہتی، وہ تصنیف و تالیف کا بڑا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ عرصہ دراز تک محکمہ تعلیم میں آفیسر رہے۔ انہوں نے 29/اگست 2008ء کو فیصل آباد میں وفات پائی۔ اُنہوں نے تین کتابیں: درود و سلام، توحید پر ایمان، شرک سے بیزاری، اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کتاب تصنیف کی۔ ان کا بیان ہے کہ ’’مولانا عبداللہ صاحب میرے والد مولانا عطاء اللہ صاحب کے لاڈلے شاگرد تھے اور اُنہیں ہمارے گھر کا فرد ہی سمجھا جاتا تھا۔ مدرسہ میں دوسرے طلبا سے ان کو ذہانت و فطانت اور علمی استعداد کے باعث امتیازی حیثیت حاصل تھی اور
Flag Counter