فقہ واجتہاد پروفیسرڈاکٹرعبدالروٴف ظفر [1] اہل حدیث اور فتویٰ نویسی؛ ایک تاریخی جائزہ قيام پاکستان کے بعد اہلحدیث مجموعہ ہائے فتاویٰ کا تعارف ۱۔ فتاویٰ ثنائیہ ازمولانا ابو الوفاء ثناء الله امرتسری رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۶۴ء۔۱۹۴۸ء) مولانا ابو الوفاء ثناء الله بن خضر امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کشمیر کے منٹو خاندان میں ۱۸۶۴ء کو اَمرتسر میں پیدا ہوئے۔ سات سال کی عمر میں پدری سایہ سے محروم ہوگئے۔ [2] مولانا نے حصولِ تعلیم کے سلسلہ میں اِنتہائی مصائب برداشت کیے۔ پندرہ سال کی عمر میں مولانا احمد الله کے مدرسہ تائید الاسلام امرتسر سے تعلیم کا آغاز کیا۔ وزیر آباد میں مولانا عبدالمنان محدث سے۱۸۸۹ء میں سند حدیث حاصل کی اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے اور حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی اور ان سے تدریس حدیث کی اجازت حاصل کر لی۔ اس کے بعد سہارنپور اور وہاں سے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ شاگردی میں شامل ہوئے۔ بعد اَزاں کانپور کے مدرسہ فیض عام میں داخل ہوئے۔ ۱۸۹۲ء میں آپ کو دستارِ فضیلت دی گئی۔ دورانِ تعلیم مولانا کو اہل حدیث،دیوبند اور بریلوی اَساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا۔ بعد اَزاں مولانا ندوة العلماء تاسیس کمیٹی کے رکن نامزد کیے گئے۔ [3] مدرسہ تائید الاسلام اَمرتسر میں چھ سال حدیث کی تدریس فرمائی۔ [4] مولانا کی تفسیر قرآن،سیرت ِ ثنائی میں ردّ ادیان باطلہ، مسلکی، تاریخی و ادبی اور کلامی |