بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فكر ونظر مسئلہ تکفیر وخروج اور علما کی ذمہ داری اسلام اور اہل اسلام پر استعماری یلغار کے پس منظر میں،مختلف اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کے دینی منظرنامے میں تکفیر وخروج[1] اور جہاد ی منہج کا مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ سادہ الفاظ میں تکفیر وخروج کی یہ بحثیں اس صورتحال میں اُبھر رہی ہیں، جب روس کے زوال کے بعدامریکہ دو دہائیاں قبل عالمی استعمارکی ہمراہی میں، نیوورلڈ آرڈر کی تکمیل کرتے ہوئے عالم اسلام پر چڑھ دوڑا ہے۔امریکہ کی عراق،خلیجی ممالک، پھر افغانستان، عراق، پاکستان اور صومالیہ ویمن میں ملتِ اسلامیہ پر جارحیت کا جواب نوجوانانِ اُمت نے جس طرح دینے کی کوشش کی ہے، اس میں جہادی گروہوں کے جوابی اقدامات کے طور پر یہ مباحث غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں کیونکہ نوجوانانِ ملت انہی نظریات پر اس جارحیت کی مزاحمت اور اپنے دفاع کو منظّم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چند برسوں سے استعماری ادارے اور مغربی این جی اوز بھی اس موضوع کو خاصا اُچھال رہی ہیں اور اس پر دیگر سماجی حلقوں کی طرح علما کی آرا جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حال ہی میں گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مجلّہ ’الشریعہ‘ کا مارچ 2012ء کا 660صفحات پر محیط ایک ضخیم شمارہ بھی اسی موضوع پر سامنے آیا ہے جس میں فی زمانہ جہاد کی مشروعیت پر کئی پہلوؤں سے سوالیہ نشان پیدا کردیے گئے ہیں اور اُمتِ مسلمہ میں صدیوں سے چلے آنے والے روایتی وشرعی نظریہ جہادکے متبادل موقف کو دلائل سے مزین کرکے تفصیل کے |