کے مستحق ہیں اور مذمت اور ناراضی کی وجہ کسی واجب کا ترک یا کسی حرام کا ارتکاب ہی ہوتا ہے اور جب غیر خاشعین مذموم (قابل مذمت) ہیں تو یہ بات اس امر پردلالت کرتی ہے کہ نماز میں خشوع واجب ہے۔ 2.امام صاحب مزید آیاتِ قرآنیہ سے خشوع کاوجوب ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’جب نماز میں خشوع واجب ہے اور جس کا مطلب عاجزی اور سکون سے نماز پڑھنا ہے تو جو شخص کوے کی طرح ٹھونگے مارتے ہوئے نماز پڑھتا ہے تو اس نے سجدے میں خشوع نہیں کیا، اسی طرح جو شخص رکوع سے سراٹھا کر سجدے کے لیے جھکنے سے پہلے اطمینان سے سیدھا کھڑا نہیں ہوا (اُس نے استقرار نہیں کیا) تو اس نے سکون نہیں کیا جو اطمینان ہی کا نام ہے۔ پس جس نے اطمینان نہیں کیا، اُس نے سکون نہیں کیا اور جس نے سکون نہیں کیا تو اس نے نہ اپنے رکوع میں خشوع کیا اور نہ اپنے سجدے میں اور جس نے خشوع نہیں کیا، وہ گناہگار اور نافرمان ہوا (نہ کہ فرماں بردار اور اطاعت شعار)‘‘ اس کے بعد امام صاحب نے نماز میں وجوبِ خشوع پر دلالت کرنے والی اَحادیث بیان کی ہیں ، مثلاً : جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھاتے ہیں ، ان کی بابت آپ نے سخت وعید بیان فرمائی: ((لینتھن عن ذلک أو لتُخطَفن أبصارھم)) (صحیح بخاری:۷۵۰) وفي روایۃ ((أو لا ترجع إلیھم أبصارھم)) (سنن ابوداؤد:۹۱۲) ’’وہ (آسمان کی طرف نگاہیں اٹھانے سے) باز آجائیں ورنہ ان کی نگاہیں اُچک لی جائیں گی۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’یا ان کی طرف ان کی نگاہیں واپس نہیں آئیں گی۔‘‘ بعض روایات میں آتا ہے کہ جب﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ ٭ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ﴾ (المومنون:۱،۲) ’’وہ مؤمن فلاح پاگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع کا اہتمام کرتے ہیں ۔‘‘ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سجدے والی جگہ سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔ (رواہ الامام احمد فی کتاب الناسخ والمنسوخ) جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا بھی خشوع کے منافی ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حرام کردیا اور اس پر سخت وعید بیان فرمائی۔ |