تصویر وطن محمدعطاء اللہ صدیقی تباہی میں ترقی کے خواب ممکن ہے بعض ’حقیقت پسند‘ دانشور اس تصور سے اتفاق نہ کریں کہ عظیم تباہی بھی کسی قوم کی ترقی یا روشن مستقبل کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کی ہولناکی اور تباہ کاری کا مشاہدہ کرنے کے بعد اگر کوئی یہ خواب دیکھتا ہے کہ یہ تباہی خوش حالی کے نتائج بھی سامنے لاسکتی ہے تو اسے ’غیر متوازن رجائیت پسندی‘ اور بہت حد تک ’دیوانہ وار رومانویت‘ کا نام دینے والے اصحاب بھی کم نہیں ہیں ۔ ہمارے ہاں اس وقت مایوسی اور بے دلی کی فضا نے پوری قوم کے اَعصاب کو متاثر کیا ہوا ہے۔ اسی لیے اس طرح کے بیانات بھی اَخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں کہ سیلاب نے پاکستان کو پچاس سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔اگر وسیع پیمانے پر معاشی تباہی اور بربادی کے مناظر کو ذہن میں رکھا جائے تو ان بیانات کی معنویت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ مگر یہ فکرونظر کا صرف ایک رخ ہے۔فکر و تدبر کے قافلۂ سخت جان کے کچھ راہی ایسے بھی ہیں جن کی نگاہیں مستقبل کے امکانات کو دیکھنے میں مصروف ہیں ۔ وہ اس انسانی تباہی پر دل گرفتہ تو ہیں ،مگر مایوس نہیں ہیں ۔ان کی سوچ کا انداز ایک ذہین اور پراعتماد سرجن کاسا ہوتا ہے جو ایک حادثے میں شدید زخمی اور مسخ شدہ اعضا کے حامل مریض کو بھی مستقبل قریب میں ایک چلتے پھرتے انسان کے روپ میں دیکھنے کی بصیرت رکھتاہے۔ وہ اس تباہی کو ایک ناگزیر حقیقت سمجھتے ہوئے بھی مستقبل میں ترقی کے دریچوں کو کھلتے ہوئے دیکھنے کا ’وِژن‘ رکھتے ہیں ۔ وہ سوچتے ہیں ، کیا بعید ہے کہ ہماری قوم اس تباہی کے بعد جمود کو توڑ کر حرکت و جدوجہد کے ایسے راستوں پر گامزن ہوجائے جو اس کی موجودہ تباہی کے مناظر مٹا کر اَرضِ پاک پر خوش حالی کے چمن آباد کر دے۔ |