مظفرگڑھ میں سیلاب زدگان کے درمیان ایک ہفتہ سے زیادہ قیام کے دوران راقم الحروف کے ذہن میں باربار یہ سوال پیدا ہوتا رہا کہ کیا ہم اس ہولناک تباہی کو ترقی کے مواقع میں تبدیل کرسکتے ہیں ؟ کیا ایسا خیال کرنا محض ایک دیوانے کا خواب ہے یا یہ ممکن العمل ہے؟ یہ سوال اتنا آسان نہیں کہ جس کا آسانی سے جواب دیا جاسکے۔ انسان کو بار بار قنوطیت اور رجائیت کے درمیان سرگرداں رہنا پڑتا ہے۔بالآخر ایک دن تونسہ پنجند کینال کے تباہ کن شگاف کا نظارہ کرتے ہوئے راقم الحروف کو اضطراری کیفیت میں انشراحِ صدر ہوا کہ ایسا نہ صرف ممکن ہے بلکہ انتہائی ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان بارہا تباہی و ہلاکت سے دوچار ہونے کے بعد تہذیب و ترقی کے منازل طے کرنے کے قابل ہوگیا۔ اس کو آپ حسنِ اتفاق کہیے یا تائید ِایزدی کہ اُسی شب مشہور یورپی مؤرخ ہٹنگٹن(Hutington)کی درج ذیل سطور راقم کی نگاہ سے گزریں جس میں اُس نے یورپ کی نشاۃ ِثانیہ (Rennaissance) کی نہایت دلچسپ توجیہ پیش کی ہے، وہ لکھتا ہے : ’’چودہویں صدی عیسوی میں کیلی فورنیا سے یورپ تک برق و باراں کے جو شدید طوفان آئے، ان کے باعث یورپی انسان اچانک ذہنی طور پر فعال ہوگیااور ایک ایسی نئی قوت سے لیس ہوکر، جو اس کے باطن کی پیداوار تھی، تخلیقی سطح پر سانس لینے لگا۔ تاریخ دانوں کے لیے یہ مسئلہ ہمیشہ لاینحل رہا ہے کہ[ مغرب میں ] نشاۃ ِ ثانیہ کا دور یوں اچانک کس طرح نمودار ہوگیا، لیکن اس دور کی آمد کوبرق و باراں کے طوفان سے منسلک کرکے دیکھا جائے تو شاید اس سے گم شدہ کڑی کا سراغ مل جائے۔‘‘ (Mainsprings of Civilization p.612) یہ اقتباس ڈاکٹر وزیرعلی آغا، جن کا چند ہفتے قبل انتقال ہوا ہے، نے اپنی فکرانگیز کتاب ’تخلیق ِعمل‘ میں درج کیا ہے۔ وہ ہٹنگٹن کی اس رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’بایں ہمہ نشاۃ ثانیہ کے دور کو محض برق و باراں کے طوفانوں کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، گو ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔‘‘ یورپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہزار سالہ ’تاریک عہد‘ سے گزر کر یہ ’نشاۃ ِثانیہ‘ کے دور میں داخل ہوا۔ اس ارتقا کے پس پشت بلا شبہ متعدد اَسباب و عوامل کارفرما ہوں گے، مگر ایک مایہ ناز یورپی مؤرخ کے قلم سے برق وباراں کے شدید طوفانوں کو اس تاریخی تبدیلی کا ایک اہم محرک |