Maktaba Wahhabi

108 - 127
قرار دینا بھی توجہ کے لائق ہے۔ راقم الحروف چونکہ خود اسی سیلاب زدہ ماحول میں موجود اور انہی خطوط پر سوچ رہا تھا، لہٰذا ان سطور کے پڑھنے کے بعد اُسے نہ صرف بے پایاں مسرت حاصل ہوئی بلکہ ایک تاریخی شہادت بھی مل گئی کہ برق و باراں کے طوفان یورپ میں ایک نئی زندگی کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں تو اکیسویں صدی میں پاکستانی قوم اس تباہی کو ترقی کے مواقع میں کیوں تبدیل نہیں کرسکتی؟ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے جن علاقوں میں سیلاب نے تباہی پھیلائی ہے، وہ تہذیبی اور معاشی اعتبار سے دیگر علاقوں کی نسبت پسماندہ ہیں ۔ راقم الحروف کو سیلاب زدگان کی حالت دیکھ کر جن صدمات سے گزرنا پڑا، ان میں سے ایک صدمہ یہ بھی ہے کہ اُسے بار بار احساس ہوتا تھا گویا کہ وہ روانڈا جیسے کسی افریقی ملک کے تباہ حال باشندوں کے درمیان پھر رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں کو پہلی دفعہ میڈیا میں دیکھ کر یہ احساس ہوا ہے کہ ان کے کڑوڑوں اہل وطن غربت، جہالت اور پسماندگی کی کن حالتوں میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں ۔ مظفرگڑھ کا تقریباً ۷۰ فیصد علاقہ زیر آب رہا ہے۔ ان میں سے ایک علاقہ کا نام موضع لوہانچ ہیں ۔یہ مظفرگڑھ سے شمال کی جانب تقریباً ۲۵ کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔یہ موضع دریاے چناب کے درمیان ایک جزیرے کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہاں یہ دریا دو شاخوں میں تقسیم ہوکر بہتا ہے۔ دریا کے پار مشرقی جانب محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ملتان شہر واقع ہے۔مغرب کے جانب بستی لنگر سرائے ہے جہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر ہیں ۔ مگر موضع لوہانچ کے لوگ ثقافتی اعتبار سے ابھی تک ’دریائی مخلوق‘کا درجہ رکھتے ہیں ۔معمولی درجہ کی کاشتکاری ان کا واحد ذریعہ آمدنی ہے۔حیرت ہے یہ لوگ اسی جزیرے تک محدود ہیں ۔ سیلاب کی وجہ سے پہلی دفعہ ان کونقل مکانی کرنی پڑی۔ ان کا لباس اور معاشرت دیکھ کر لگتا ہے گویا ہزار سال پہلے کے لوگ ہیں ۔اُنہیں دیکھ کر امریکہ کے ریڈانڈین یاد آتے ہیں ۔ نجانے موضع لوہانچ کی طرح کے کتنے علاقے ہیں جو ہماری نگاہوں سے اب تک اوجھل رہے ہیں ۔ بڑے شہروں کی چکاچوند تہذیب نے ہماری قومی بصارت کو شاید چندھیا کر رکھ دیا ہے کہ ہم اپنے وطن کے ’ریڈانڈین‘ کوابھی تک نہیں دیکھ سکے ہیں ۔ اب سیلاب نے اُنہیں اپنے کچے
Flag Counter