یادِ رفتگاں مولانا مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ مولانا مقتدی حسن ازہری بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون! مولانا مرحوم کی زیارت اور ملاقات کی شدید خواہش تھی، لیکن پاک و ہند کی غیر انسانی حکومتوں اور ان کی سیاسی آویزشوں نے آنے جانے کی راہ میں جو غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کررکھی ہیں ، قربِ مکانی کے باوجود اُنہوں نے مشکلات کے ہما لیے کھڑے کردیئے ہیں جنہیں عبور کرنااہلِ علم کے لئے کارے دارد ہے۔ اس سے قبل محدثِ ہند مولاناعبیداللہ رحمانی مبارکپوری، مولاناعبدالوحید آف بنارس، مولانا رئیس احمدندوی، خطیب ِاسلام مولانا جھنڈا نگری رحمہم اللہ اجمعین اور دیگر بہت سے اہل علم کی زیارت کے شرف سے محرومی مسلسل قلق و اضطراب کا باعث ہے۔ قدّر اللّٰه ماشاء وما لم یشأ لم یکن! مولاناازہری رحمہ اللہ سے ایک موضوع پر تقریباً ربع صدی سے وقتاً فوقتاً خط و کتابت کے ذریعے سے ایک تعلق قائم تھا، اس کا علم ان کے قریبی رفقا کو بھی غالباً ہوگا ، وہ ایک علمی امانت بھی ہے اور ان کی علمی تڑپ کامظہر بھی جس کو وہ پورا کرنے کی شدید خواہش اور کوشش کے باوجود اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ اس کی وضاحت اس لئے ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اس کام کے کرنے کی واقعی ضرورت و اہمیت ہے، مولانا ازہری کے ذریعے وہ کام اگر نہیں ہوسکا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب اس کی ضرورت یا افادیت ختم ہوگئی ہے۔ وہ کام ضرور ہونا چاہئے، اس کی افادیت و ضرورت مسلمہ ہے اور وہ پاک و ہند کے علما اور مرکزی جماعتوں اور اصحابِ وسائل اداروں کی ذمے داری بھی ہے، بالخصوص فضلاے مدینہ یونیورسٹی کی، جن کی ایک معقول تعداد پاک و ہند میں موجود ہے۔ وہ کام ہے راقم کی کتاب: ’خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت‘ کو عربی کا جامہ پہنانے کا، جومولانا مودودی کی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘کا مدلل اور علمی و تحقیقی جواب ہے۔ |