حدیث وسیرت ابو ثوبان غلام قادر٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذرائع معاش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے جمیع طبقات کے لئے اُسوئہ حسنہ اور نمونہ ہیں ۔ آپ کے معاشی معمولات میں مسلمانوں کے لئے بیش قیمت رہنمائی موجود ہے۔ بعض اوقات ہم لوگ منقول حقائق کی جستجو کی بجائے ایک مثالی تصور اپنے ذہن میں قائم کرکے اس کے مطابق دلائل کی تلاش شروع کردیتے ہیں ۔ جبکہ یہ امر ظاہرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے قبل معاشی سرگرمیاں اختیار کیں ، بکریاں چرائیں اور تجارتی سفر بھی کئے، لیکن نبوت پر فائز ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی معاشی سرگرمی کا ذکر کتب ِسیرت میں نہیں ملتا۔ زیر نظر مضمون کے مقالہ نگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذر ائع آمدن کی جستجو میں بہت سی تفصیلات یکجا کردی ہیں ، لیکن وہ بھی دورِ نبوت میں آپ کی معاشی سرگرمی کا سراغ لگانے سے قاصر رہا ہے۔ اس نظریہ سے اگلا مسئلہ میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر فائز حقیقی علماے کرام کے ذریعہ معاش کاپیدا ہوتا ہے۔ اگر کسی عالم نے دینی خدمات کے ساتھ اپنے ذریعہ آمدنی کو جداگانہ رکھنے کی کوشش کی ہے ، تو اس عالم کی عزیمت قابل قدر امر ہے، لیکن درحقیقت شریعت اسلامیہ کا یہ تقاضا نہیں ہے بلکہ اُمت مسلمہ پر جہاں علماے ربانی کا احترام فرض ہے وہاں ان کو معاشی ضروریات سے بالاتر کردینا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے، کیونکہ کوئی عالم دین شرعی رہنمائی کرتے ہوئے ذاتی کی بجائے اجتماعی خدمت کررہا ہوتا ہے، جس کا صلہ تو اللہ ہی آخر کار اسے دیں گے، البتہ عامتہ الناس یا مسلم حکومت کو اس کی ضروریاتِ زندگی کا انتظام از خود کرنا چاہئے،یہی اُمت مسلمہ کی صدہاسالہ روایت رہی ہے، اَئمہ اسلاف کے معاشی معمولات اسی کی نشاندہی کرتے ہیں اور جن علما کے بعض پیشے کتب تاریخ میں ملتے ہیں ، وہ یاتوشاذونادر اور عزیمت کی قبیل سے ہیں یا قبل از دینی خدمات ان کے معاشی معمولات کا تذکرہ ہے۔ البتہ یہ بحث تفصیلی مضمون کی متقاضی ہے۔ ح م نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی مسلما نوں کے لیے مکمل نمو نہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی ذات میں وہ تمام صفات جمع تھیں جو کسی بھی گوشۂ زندگی میں مطلوب ہو سکتی ہیں ۔آپ کی ٭ پی ایچ ڈی سکالر ، ادارہ علوم اسلامیہ ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور |