Maktaba Wahhabi

125 - 127
مولانا مرحوم نے اپنے پہلے مکتوب میں تحریر فرمایا تھا کہ’’ اس کتاب کو عربی میں منتقل کرنے کی شدید ضرورت ہے، میری مصروفیات مجھے اجازت نہیں دیتیں ، ورنہ میں خود یہ کام کرتا، آپ اس کے لئے کوشش فرمائیں ۔‘‘ راقم نے ان کو جواب میں تحریر کیا کہ ’’راقم کی بھی یہ شدید خواہش ہے، بالخصوص جب سے راقم کے علم میں یہ آیا ہے کہ مولانا مودودی کی کتاب کویت سے عربی میں الخلافۃ والملک کے نام سے شائع ہوگئی ہے تو یہ خواہش شدید تر ہوگئی ہے۔ کیونکہ اس کی ضرورت بھی فزوں تر ہوگئی ہے لیکن پاکستان میں ، میں نے کئی فضلاے مدینہ کو بھی اس طرف متوجہ کیا لیکن نتیجہ ع اے بسا آرزو کہ خاک شد! کی صورت میں نکلا۔اس لئے آپ ہندوستان میں فضلاے مدینہ سے یہ کام کروا سکتے ہیں تو اس کے لئے ضرور کوشش فرمائیں ۔‘‘ کچھ عرصے بعد مولانامرحوم نے راقم کو لکھا کہ ’’میں نے چند اہلِ علم کو اس کام کے لئے تیار کرلیا ہے اور اس کے اجزا میں نے ان میں تقسیم کردیئے ہیں ، وہ تھوڑا تھوڑا حصہ عربی میں منتقل کردیں گے۔‘‘ لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ جن حضرات کے سپرد یہ کام کیا گیا، اُنہوں نے کچھ کیا یا نہیں ؟ اس کی تفصیل وہی جانتے تھے یا شاید مولاناصلاح الدین مقبول حفظہ اللہ (کویت) کے علم میں ہو۔ راقم کو مزید تفصیلات کا علم نہیں ۔ لیکن سالہا سال کی خاموشی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ازہری رحمہ اللہ اس منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دو سال قبل پھر ان کا مکتوبِ گرامی آیا کہ ’’آپ اس کام کے لئے محترم عبدالمالک مجاہد صاحب کو آمادہ کریں ۔‘‘ راقم نے ان کا وہ مکتوب محترم مجاہد صاحب کو جب وہ پاکستان تشریف لائے، دکھایا تو اُنہوں نے اس مکتوب پر ہی اپنے دست ِمبارک سے حسب ِذیل عبارت تحریر کرکے مجھے واپس کردیا کہ ’’یہ مولانا مقتدیٰ حسن کو بھیج دیں ۔ یہ کام آپ ہندوستان میں اپنی زیرنگرانی کروالیں ، سارا خرچہ میں برداشت کرلوں گا۔‘‘ یہ مکتوب راقم نے مولانا ازہری کوارسال کردیا، لیکن پھر ان کاجواب نہیں آیا۔ یہ گویا آخری مکتوب ثابت ہوا۔ اس مختصر تفصیل سے اصل مقصود یہ ہے کہ محولہ کتاب کو عربی میں منتقل کرنے کی واقعی شدید
Flag Counter