Maktaba Wahhabi

105 - 127
امام صاحب رحمہ اللہ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز ہر صورت میں اِعتدال و اطمینان کے ساتھ پڑھنی بھی ہے اور پڑھانی بھی ہے۔ البتہ اکیلے پڑھتے وقت اِعتدال کی کوئی حد نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام،رکوع، قومہ، سجدہ، دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا،یہ سارے ارکان عام طور پر تقریباً برابر ہوتے تھے جیسا کہ اَحادیث میں اس کی وضاحت ہے اور جب کوئی امام ہو تو اس وقت مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز پڑھانی ہے، کیونکہ ان میں ضعیف،بیمار،بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں ،خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم معمول کے مطابق نماز پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن جب آپ کو بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپ نماز میں تخفیف فرما دیتے تھے۔ لیکن تخفیف کا مطلب وہ نہیں جو آج کل سمجھ لیاگیا ہے کہ پوری نماز ’ تو چل میں آیا‘ کے انداز میں پڑھا دی جائے،بلکہ تخفیف کا مطلب قراء ت میں اختصار ہے (جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے سے واضح ہے) اور رکوع، سجود، قومہ، قعود بین السجدتین، وغیرہ سارے اَرکان اطمینان کے ساتھ اَدا کرنے ہیں ، جیسے عمر رحمہ اللہ بن عبدالعزیز اس دور کے طریقے کے مطابق بحیثیت ِگورنر،امامت فرماتے تو رکوع و سجود میں تقریباًدس دس تسبیحات پڑھتے، گویا امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ مقتدیوں کا خیال رکھنے کی تاکید کے باوجود نماز میں اعتدال و اطمینان کا خیال رکھے اور تخفیف کے نام پر اعتدالِ ارکان کی اہمیت کو نظر انداز نہ کرے۔ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو یہ فرمان ہے کہ’’نماز کو لمبا کرنا اور خطبے میں اختصار کرنا سمجھداری کی علامت ہے۔‘‘اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نماز خطبے سے لمبی اور خطبہ نماز سے مختصر ہو۔ ان کا بھی آپس میں تقابل نہیں ہے بلکہ یہ دو الگ الگ حکم ہیں اور ان کے الگ الگ تقاضے ہیں ۔نماز جب بھی پڑھی یا پڑھائی جائے، لمبی یعنی اعتدال و سکون کے ساتھ پڑھی اور پڑھائی جائے اور خطبہ اور وعظ جب بھی ارشاد فرمایا جائے، اس میں طوالت کے بجائے اختصار اور جامعیت سے کام لیا جائے۔ جو شخص ان دونوں چیزوں میں ان پہلوؤں کو ملحوظ رکھے گا، وہ یقینا فہم و تفقہ سے بہرہ ور ہے، رزقنا اﷲ منہ؛ بصورتِ دیگر وہ اس خوبی سے محروم ہے۔أعاذنا اللّٰه منہ آمین!
Flag Counter