Maktaba Wahhabi

104 - 127
کا حکم خطبے کے مقابلے میں ہے اور ماقبل کی حدیث میں تخفیف کا حکم ان بعض ائمہ کے طرزِعمل کے مقابلے میں ہے جس کا اظہار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اُن سے ہوا کہ انہوں نے عشاء کی نماز میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی۔ اس لیے آپ نے ان سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص تنہا نماز پڑھے تو جتنی لمبی چاہے نماز پڑھے۔‘‘ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو، جنہوں نے عشا کی نماز میں سورۂ بقرہ پڑھی تھی، فرمایاتھا کہ ’’کیا تم لوگوں کو فتنے میں ڈالنا چاہتے ہو، تم سورۃ اللیل، سورۃ الشمس وغیرہ پڑھا کرو۔‘‘ ٭ لوگوں نے طوالت کی مقدار کو بھی نہیں پہچانا اور نہ اس طوالت کو سمجھا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا اور اپنی طرف سے ایک متعین مقدار کو مستحب قرار دے لیا، جیسے رکوع، سجود میں کم از کم تین مرتبہ تسبیحات پڑھنا۔ حالانکہ امام کے لیے تین مرتبہ تسبیحات پر اکتفا کرنے کو سنت قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ رکوع کے بعد اعتدال کو لمبا نہ کرنا سنت ہے یانماز کو آخری وقت تک مؤخر کرنا سنت ہے،وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے پاس ان کاموں کو سنت قرار دینے کی کوئی اصل نہیں ہے۔بلکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ اپنی غالب (اکثر) نمازوں میں تین مرتبہ سے زیادہ تسبیحات (سبحان ربي العظیم، سبحان ربي الأعلی) پڑھتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ، جن کو پانچویں خلیفہ راشد قرار دیا جات ہے، یہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے کے گورنر بنے (ولید بن عبدالملک کی خلافت میں ) تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے نماز پڑھی تو اُنہوں نے فرمایا: ما صلیت وراء أحد بعد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أشبہ صلاۃ برسول اللّٰه من ھذا الفتی یعنی عمر بن عبد العزیز قال: فحزرنا في رکوعہ عشر تسبیحات وفي سجودہ عشر تسبیحات (سنن ابوداؤد:۸۸۸،نسائی:۱۱۳۵) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے پیچھے اس نوجوان (عمر بن عبدالعزیز) جیسی نماز نہیں پڑھی جو اس سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہو۔ اُنہوں نے کہا: ہم نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے رکوع میں بھی دس تسبیحات پڑھیں اور سجدے میں بھی دس تسبیحات پڑھیں ۔‘‘ (ملخص از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ:۲۲/۵۹۴ تا۵۹۷، طبع قدیم)
Flag Counter