اِمام کے لیے تخفیف کے حکم کا مطلب ایک نہایت اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((إذا صلی أحدکم للناس فلیخفّف فإن فیھم الضعیف والسقیم والکبیر وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطوّل ماشائ))(صحیح بخاری: ۷۰۳) ’’جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نمازپڑھائے،اس لیے کہ نمازیوں میں ضعیف،بیمار، بوڑھے بھی ہوتے ہیں اورجب خود (تنہا) نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔‘‘ یہ مسئلہ بھی اکثر و بیشتر خلجان کاباعث بھی بنتا ہے اور تخفیف کے نام پر نماز کا حلیہ بھی بگاڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے بے مثال فہم و تفقہ سے نہایت عمدہ پیرائے میں اس مسئلے کو بھی حل فرمایا ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’تخفیف ایک اضافی اور نسبی امر ہے، اس کی کوئی حد نہ لغت میں ہے اور نہ عرف میں ۔اس لیے کہ ایک چیز کچھ لوگوں کو لمبی لگتی ہے جب کہ کچھ دوسرے اس کو ہلکا سمجھتے ہیں ۔ کسی چیز کو بعض ہلکا سمجھتے ہیں جب کہ دوسروں کے نزدیک وہ لمبی ہوتی ہے۔ پس یہ ایسا معاملہ ہے کہ لوگوں کی عادات اور عبادات کی مقادیر کے اختلاف کے ساتھ ساتھ مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ تخفیف اور طوالت کا فیصلہ بھی وہ سنت ِنبوی ہی کی روشنی میں کرے اور سنت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تخفیف کا حکم، آپ کے تطویل کے حکم کے منافی نہیں ہے، یعنی ان دونوں حکموں میں منافات یا تضاد نہیں ہے، دونوں کا اپنا اپنا محل ہے۔ اُس محل اور پس منظر ہی میں دونوں حکموں کو رکھ کر دیکھنا چاہئے۔جیسے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن طول صلاۃ الرجل وقصر خطبتہ مئنّۃ من فقھہ،فأطیلوا الصلاۃ واقصروا الخطبۃ)) (صحیح مسلم:۸۶۹) ’’آدمی کا لمبی نماز پڑھانا اور خطبہ مختصر دینا، اس کے سمجھ دار ہونے کی علامت ہے، پس تم نماز لمبی کرو اور خطبہ مختصر کرو۔‘‘ اس حدیث میں نماز کو لمبا کرنے کا جب کہ اس سے ماقبل کی حدیث میں تخفیف (ہلکی کرنے)کا حکم تھا،ان میں منافات (ایک دوسرے سے تضاد) نہیں ہے۔اس لیے کہ طوالت |