روکتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قولاً اور فعلاً صحابہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز میں سکون اور اطمینان واجب ہے۔ اگر یہ سکون واجب نہ ہوتا تو صحابہ کبھی تو اس سکون و اطمینان کو ترک کردیتے جیسے وہ غیر واجب چیزوں کو (بعض دفعہ) چھوڑ دیتے تھے۔ ٭ علاوہ ازیں لغت ِ عرب میں رکوع اور سجود کا معنی و مفہوم اس وقت ہی متحقق ہوتا ہے جب رکوع کے لیے جھکتے وقت اور چہرے کو زمین پررکھتے وقت سکون و اطمینان کا اہتمام کیا جائے ورنہ محض جھک جانا اور سر کو زمین پر رکھ کر اُٹھا لینا، اس کا نام نہ رکوع ہے اور نہ سجدہ۔ اور جو اس کو رکوع اور سجدہ قرار دیتا ہے، وہ لغت ِعرب کے خلاف بات کرتا ہے۔ اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ لغت ِعرب سے اس کی دلیل پیش کرے، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتا،کیونکہ اس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے نہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے اس کے پاس کوئی راستہ ہے۔ پس اس موقف کا قائل بغیرعلم کے اللہ کی کتاب پر بھی حرف زنی کرتا ہے اور لغت عرب پر بھی۔ اور جب اس امر ہی میں شک پڑ جائے کہ واقعی یہ سجدہ کرنے والا ہے یا سجدہ کرنے والا نہیں ہے تو اس کامطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص بالاتفاق حکم سجدہ کی تعمیل کرنے والا نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ سجدہ واجب ہے، لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ سجدہ کرنے والے نے اس وجوب پر عمل کرلیا ہے۔جیسے کسی شخص کو یہ تو یقین ہو کہ نماز یا زکاۃ اس پر واجب ہے، لیکن اس کو یہ شک ہو کہ اس نے نمازپڑھ لی یا زکاۃ ادا کردی۔ مزید برآں ، اللہ تعالیٰ نے نماز کی حفاظت اور اس پر مداومت (ہمیشگی) کو واجب کیا ہے اور نماز کے ضائع کرنے اور اس سے تساہل برتنے کی مذمت کی ہے۔ جیسے سورۂ مومنون اور سورۂ معارج وغیرہما کی آیات میں ان کا بیان ہے۔ (امام صاحب نے یہاں یہ آیات نقل فرمائی ہیں اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ)یہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص نماز کے واجبات میں سے کوئی ایک چیز بھی چھوڑتا ہے تو وہ قابل مذمت ہے (نہ کہ قابل مدح) چاہے ظاہری طور پر وہ نماز پڑھنے والا ہی ہو، جیسے کوئی شخص وقت ِواجب کو چھوڑ دے یا نماز کے ظاہری و باطنی اعمال میں سے ان کی شرائط و اَرکان کی تکمیل کو ترک کردے۔ (ملخصاً از مجموع الفتاویٰ:۲۲/۵۴۷۔۵۷۲) |