اطمینان کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کو فرمایا تھا: ((إذا حضرت الصلاۃ فاذنا وأقیما ولیؤمکما أکبرکما وصلّوا کما رأیتموني أصلي)) (صحیح بخاری:۶۵۸) ’’جب نماز کاوقت ہوجائے تو تم اذان دو اور تکبیر کہو اور تم دونوں میں سے جو بڑا ہو، وہ امامت کرائے اور تم نماز اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ پس آپ نے ان کو یہی حکم دیا کہ وہ نماز اس طرح پڑھیں جیسے اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اَئمہ مساجد کی ذمہ داری یہ امر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امام لوگوں کو نماز اس طرح پڑھائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے اور اس کے کوئی اور بات معارض ہے، نہ مخصص اس لیے کہ امام کی ذمہ داری مقتدی اور منفرد سے زیادہ ہے۔ صحیحین میں یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر پرنماز پڑھائی(سوائے سجدے کے، وہ آپ منبر سے اُتر کر کرتے) نماز سے فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: ’’میں نے یہ (منبر پر چڑھ کر نماز پڑھانا) اس لیے کیا ہے کہ ((لتأتموا بي ولتعلموا صلاتي)) ’’تاکہ تم میری اقتدا کرو اور میرا طریقۂ نماز جان لو۔‘‘(بخاری:۹۱۷،مسلم:۵۴۴) اور ابوداؤد و نسائی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں اطمینان و سکون اور اعتدالِ اَرکان کے ساتھ چار رکعتیں پڑھائیں اور پھر فرمایا: ’’ھٰکذا رأینا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلي‘‘ (سنن ابوداؤد:۸۶۳،سنن نسائی:۱۰۳۷) ’’ہم نے اس طرح ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ اور اس طریقۂ نماز پرصحابہ کا اجماع ہے، اس لیے کہ وہ سب نہایت اطمینان سے نماز پڑھتے تھے اور جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتے جو اطمینان سے نماز نہیں پڑھتا تو وہ اس پر نکیر کرتے اور اس کو اس سے منع فرماتے اور کوئی صحابی اس منع کرنے والے صحابی کو اس سے نہ |