4. امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک اور قرآنی استدلال ملاحظہ فرمائیں ، فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت میں رکوع اور سجدے کو واجب قرار دیا ہے اور یہ اجماعاً بھی واجب ہیں ، اللہ کافرمان ہے:﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا﴾ وغیرھا من الآیات’’اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو۔‘‘اور اس قسم کی دیگر آیات نقل فرما کر لکھتے ہیں : ’’جب اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لیے رکوع اور سجدہ کرنے کو اپنی کتاب میں فرض کیا ہے جیسے اس نے نماز کو فرض کیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتابِ مبین میں نازل کردہ اَحکام کے مبین و مفسر ہیں اور آپ کی سنتیں کتاب اللہ کی تفسیر و توضیح کرتی ہیں اور آپ کا عمل کسی حکم الٰہی کی تعمیل یا اس کے کسی مجمل حکم کی تفسیر ہی پر مبنی ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی اللہ کے حکم کی تعمیل اوراس کی تفسیر ہی ہوا۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہررکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے کرتے تھے تو یہ دونوں ہی چیزیں واجب ہوئیں ، اور یہ اللہ کے اس حکم کی تعمیل ہے جو اللہ نے رکوع اور سجدہ کرنے کی صورت میں دیا اوراُس اجمال کی تفسیر ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔ اسی طرح سجدے کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے بھی آپ کی سنت ہی مرجع ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض اور نفل دونوں ہی نمازیں ادا فرماتے تھے اور لوگ بھی آپ کے زمانے میں نمازیں پڑھتے تھے اور آ پ نے رکوع اور سجدے میں اعتدال کے بغیر اور نماز کے دیگر افعال میں اطمینان کے بغیر نماز نہیں پڑھی، چاہے فرض نماز ہوتی یانفل نماز اور لوگ بھی آپ کے عہد میں نماز پڑھتے تھے اور وہ بھی رکوع و سجود میں اعتدال اور دیگر افعالِ نماز میں اطمینان کے بغیر نماز نہیں پڑھتے تھے۔یہ طرزِ عمل اس امرکا تقاضا کرتا ہے کہ نماز کے تمام افعال میں سکون اور اطمینان واجب ہے جس طرح ان کاعدد واجب ہے یعنی ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرزِعمل پر مداومت (ہمیشگی)کرنا، یعنی ہر روز ہر نماز میں اعتدال وسکون کا خیال رکھنا، اس کے وجوب پربہت قوی دلیل ہے۔ اگر اطمینان واجب نہ ہوتا تو آپ کبھی تو اعتدال و اطمینان کے بغیر نماز پڑھ لیتے، چاہے زندگی میں ایک مرتبہ ہی سہی، تاکہ اس کا جواز واضح ہوجاتا، یا اس کے ترک کا جواز ہی واضح کرنے کے لیے آپ کوئی اشارہ فرما دیتے۔پس جب آپ نے اطمینان کے ترک کا جواز نہ اپنے سے عمل سے واضح کیا اور نہ اپنے فرمان سے، باوجودیہ کہ آپ نے نماز پر مداومت فرمائی ہے تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ نماز کو |