Maktaba Wahhabi

98 - 127
اور خود امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے۔ ان کے علاوہ دیگر ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کے لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے اور اس کی دلیل وہ اَحادیث ہیں جو صحیحین (بخاری و مسلم) اور دیگر کتب ِحدیث میں ہیں (اس کے بعد امام صاحب نے حدیث مسیئ الصلاۃ سمیت وہ اَحادیث بیان فرمائی ہیں جو گزشتہ صفحات میں بیان ہوئی ہیں۔) (دیکھئے مجموع الفتاوٰی:۲۲/۶۰۱ تا۶۰۳) وجوبِ اطمینان، قرآنِ کریم کی روشنی میں گزشتہ صفحات میں اَحادیث کی رُو سے نماز میں اطمینان اور اعتدالِ اَرکان کا وجوب ثابت کیاگیا ہے، اس کے بعد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دسیوں آیاتِ قرآنیہ سے نماز میں وجوبِ اطمینان کا اِثبات کیا ہے جو ان کے غزارتِ علم، و فورِ دلائل اورقوتِ استنباط و استخراج کی دلیل ہیں ۔ یہ صفحات ان کی مکمل بحث کو نقل کرنے کے متحمل نہیں ، تاہم ہم ایک دو مقامات کا خلاصہ ذیل میں پیش کرتے ہیں تاکہ مسئلہ زیر بحث کے کچھ قرآنی دلائل بھی سامنے آجائیں ۔ 1.امام صاحب رحمہ اللہ قرآنِ کریم کی آیت : ﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ﴾ (البقرہ:۴۵) ’’نماز اور صبر سے مدد طلب کرو اور یہ نماز بڑی بھاری ہے ، البتہ خشوع کرنے والوں پر بھاری نہیں ہے۔‘‘ بیان کرکے فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت کا اقتضا یہ ہے کہ جو نماز میں خشوع کرنے والے نہیں ہیں ، وہ قابل مذمت ہیں ، جیسے اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کے حکم کے وقت فرمایا تھا: ﴿وَإنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃ؟؟ٌ اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰهُ﴾ (البقرۃ:۱۴۳) ’’یہ حکم یقینا بڑا بھاری ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ نے ہدایت سے نواز دیا ہے۔‘‘ یا جیسے اللہ کا فرمان ہے : ﴿کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ﴾ (الشوریٰ:۱۳) ’’مشرکین پر وہ بات بہت بھاری(گراں ) ہے جس کی طرف (اے پیغمبر!) آپ انکو بلاتے ہیں ۔‘‘ پس اللہ عزوجل کی کتاب ایسے افراد کی نشاندہی کررہی ہے جن پر وہ بات گراں گزرتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتاہے اور جس کی وجہ سے ایسے لوگ دین میں قابل مذمت اور ناراضی
Flag Counter