ٹھونگے مارتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ رہے تھے، آپ نے فرمایا: ’’اس کو دیکھتے ہو؟ اگر اس کو (اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے)موت آگئی تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ملت کے علاوہ کسی اور ملت پراس کو موت آئے گی۔یہ اپنی نماز میں اس طرح ٹھونگے مارتا ہے جیسے کوا خون (یا مٹی) میں ٹھونگے مارتا ہے۔ یادرکھو اس شخص کی مثال جو نماز پڑھتا ہے اور رکوع پوری طرح نہیں کرتا اور اپنے سجدے میں ٹھونگے مارتا ہے، اس بھوکے کی طرح ہے جو ایک یا دو کھجوریں کھاتاہے جو اس کی بھوک کے لیے یکسر ناکافی ہوتی ہیں ۔ اسلئے (سب سے پہلے) کامل طریقے سے وضو کرو۔ ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے اور آگ کی وعید ہے جن کی ایڑیاں خشک رہیں اور رکوع اور سجود پوری طرح کرو۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ: ۱/۳۵۵، رقم۶۶۵) صحیح بخاری کے حوالے سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی گزر چکا ہے جس میں اُنہوں نے بھی بغیر اعتدالِ اَرکان نماز پڑھنے والے کی موت کی بابت اس قسم کا اندیشہ ظاہرفرمایا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تیری موت اس فطرت پر نہیں ہوگی جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا ۔‘‘ سنت سے مراد ایک تو وہ فعل ہوتا ہے جو فرض نہیں ہوتا، لیکن یہاں سنت سے مراد دین وشریعت ہے، اس لیے غیر الفطرۃ اور غیر السنۃ دونوں سے یہاں مراد ایک ہی ہے یعنی دین اور شریعت۔ مستحبات مراد نہیں ہے اس لیے کہ مستحبات کے ترک پر اتنی مذمت اور وعید نہیں ہوتی، بنا بریں جب یہ کہا جائے کہ تیری موت سنت پر یا فطرت پر نہیں آئے گی تو اس کامطلب ہے کہ دین اسلام اور شریعت ِمحمدیہ پرنہیں آئے گی۔ (ملخص از فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ : ۲۲/۵۲۶تا۵۴۷) عدمِ اطمینان کی صورت میں نماز کا دوبارہ پڑھناواجب ہے! امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا، اگر کوئی شخص اطمینان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تو اس کی نماز کیسی ہوگی؟ امام صاحب نے فرمایا: ’’نماز کو اطمینان کے ساتھ پڑھنا واجب ہے اور اطمینان سے نہ پڑھنے والانماز کو بگاڑنے والا ہے، وہ مسیئ الصلاۃہے، مُحسن الصلاۃ نہیں ،بلکہ وہ گناہگار اور واجب کا تارک ہے۔ جمہور ائمۂ اِسلام، امام مالک، شافعی، احمد، اسحق، ابویوسف، محمد(اصحابِ ابی حنیفہ) |