اس حدیث میں اللہ کے رسول نے بتلایا کہ منافق فرض نماز کا وقت ضائع کردیتا ہے اور اپنا فعل(نماز کا پڑھنا) بھی ضائع کردیتا ہے اور صرف ٹھونگیں مارتا ہے۔ اس سے یہ رہنمائی حاصل ہوئی کہ یہ دونوں فعل مذموم ہیں (نماز کا اصل وقت ضائع کرنا اور پھر نماز کو کوّے کی طرح ٹھونگے مار کر پڑھنا) حالانکہ یہ دونوں چیزیں (وقت پر نماز پڑھنا اور اعتدال کے ساتھ پڑھنا) واجب ہیں ، یہ منافق دونوں واجبات کا تارک ہے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نماز کوٹھونگے مار کر پڑھنا ناجائز ہے اور یہ اس شخص کا فعل ہے جس میں نفاق ہے اور نفاق سب کا سب حرام ہے۔یہ حدیث بجائے خود ایک مستقل دلیل ہے اور ماقبل کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ وَاِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَائُ وْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ (النساء :۱۴۲) ’’منافقین اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اُنہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو دل سے نہ چاہتے ہوئے، لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اللہ کو بس تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں ۔‘‘ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو اپنی نمازوں میں ٹھونگے مارتے ہیں اور اِعتدال واطمینان سے پوری طرح نہ رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ کرتے ہیں ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو (منافق)کی مثال بیان فرمائی ہے، وہ بہترین مثال ہے، اس لیے کہ نماز دلوں کی خوراک ہے جس طرح کہ غذا جسم کی خوراک ہے، پس جب جسم تھوڑے سے کھانے سے (پورح طرح) غذا حاصل نہیں کرپاتا (اس لیے اس میں قوت وتوانائی نہیں آتی) تو دل بھی ٹھونگے مار نماز سے خوراک حاصل نہیں کرپاتا، اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایسے کامل اَنداز سے نماز پڑھی جائے جس سے دلوں کو پوری خوراک حاصل ہو۔ حدیث میں ایک اور واقعہ آتا ہے جو صحیح ابن خزیمہ میں موجود ہے۔ حضرت ابوعبداللہ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی، پھر ان کے ایک گروہ میں بیٹھ گئے، اتنے میں ایک شخص آیا اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا، رکوع کرتا اور سجدے میں |