رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا: ((ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰه وسنۃ نبیہ)) (موطا امام مالک،کتاب الجامع، باب النہی عن القول بالقدر) ’’میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، جب تک تم اُنہیں مضبوطی سے پکڑے رہوگے، ہرگز گمراہ نہیں ہوگے (اور وہ ہیں ) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔‘‘ ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو اس طرح واضح فرمایا: ((کل أمتي یدخلون الجنۃ إلامن أبٰی)) قالوا: یارسول اللّٰه ومن یأبٰی؟ قال: ((من أطاعني دخل الجنۃ ومن عصاني فقد أبٰی)) (صحیح بخاری: ۷۲۸۰) ’’میری ساری اُمت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا، صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! انکار کرنے والاکون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا۔‘‘ نماز میں اطمینان اور خشوع خضوع کی اہمیت،اَحادیث کی روشنی میں نمازاسلام کا اہم ترین فریضہ ہے۔ اگر یہی سنت نبوی کے مطابق نہ ہوئی جس کی بابت روزِقیامت سب سے پہلے باز پرس ہوگی، تو دوسرے عملوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ جیسے ایک صحابی رسول حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ آتا ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع سجود اطمینان سے نہیں کررہا تھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا ما صلَّیت’’تو نے نماز ہی نہیں پڑھی۔‘‘ راوی کابیان ہے کہ میرے خیال میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس کو یہ بھی کہا:’’لو مُتَّ مت علیٰ غیرسنۃ محمد‘‘ (صحیح بخاری:۳۸۹) ’’اگر تجھے (اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے) موت آگئی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر تجھے موت نہیں آئے گی۔‘‘ بلکہ اسی طرح کا ایک واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا بھی ہے جس میں ہمارے لیے بڑی عبرت ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھنے کے لیے آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس شخص نے نماز پڑھی، آپ اس کو دیکھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہوکر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، آپ نے سلام کاجواب دیا |