اس شعر کامصداق ہے ؎ جو میں سربہ سجدہ ہوا کبھی توزمین سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیاملے گا نماز میں (بانگ درا) تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر (بالِ جبریل) قرآن و حدیث کے اتباع کا حکم اور اس کی اہمیت بنا بریں ضروری ہے کہ ہم ہرمعاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو سامنے رکھیں اور انہی کے مطابق سارے کام انجام دیں ، ورنہ محنت اور عمل کے باوجود ان کے ضائع ہونے کا شدید خدشہ ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ﴾( محمد:۳۳) ’’ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے عملوں کو باطل نہ کرو۔‘‘ اس سے معلوم ہواکہ جس عمل میں اللہ و رسول کی اطاعت نہیں ہوگی، وہ عمل باطل ہے۔ اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، عمل کرنے والا اس کی بابت چاہے کتنابھی خوش گمان ہو، محض خوش گمانی سے کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں ہوسکتا۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا٭ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِيْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا﴾ (الکہف:۱۰۳،۱۰۴) ’’کہہ دیجئے! کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اعمال میں سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں ؟ جس کی کوشش دنیاوی زندگی میں اکارت گئی، جب کہ وہ سمجھتے رہے کہ وہ اچھے کام کررہے ہیں ۔‘‘ یہ فرمانِ الٰہی ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ رسول کو مانتے ہی نہیں ، یامانتے تو ہیں ، لیکن صرف زبان کی حد تک، اَعمال میں وہ ان کی اطاعت کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ اپنے من مانے طریقے سے عمل کرتے ہیں ۔ نتیجے کے اعتبار سے ان دونوں میں فرق نہیں ۔ اس لیے |