2.اس کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے راوی یزید بن ابی زیاد کے بارے میں بھی عجیب استدلال فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اس حدیث کی سند میں ایک راوی یزیدبن ابی زیاد مختلف فیہ راوی ہے، لیکن اس راوی کا ضعیف ہونا اَئمہ محدثین کے نزدیک اتفاقی نہیں ہے۔‘‘ (محدث:ص۲۳) سوال یہ ہے کہ کسی راوی کے ضعیف ہونے کے لیے ائمہ محدثین کا اتفاق کرنا ضروری ہے اور تب ہی وہ راوی ضعیف بنتا ہے۔ اگر قاعدہ یہ ہے کہ تو پھر تو بہت سے ضعیف راوی ضعیف نہیں ٹھہریں ہوں گے کیونکہ ان کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق نہیں ۔ اس راوی کو یحییٰ بن معین، احمد، شعبہ، وکیع، ابن المبارک، ابوحاتم رازی، نسائی، ابن عدی، ابوداؤد، ابن خزیمہ، جوزجانی،عقیلی، دارقطنی، ابن حجر اور ذہبی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی محدثین ہیں جنہوں نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (تفصیل کے لیے محترم حافظ زبیر علی زئی کی کتاب ’نور العینین‘ ص ۱۳۵ ملاحظہ کیجئے) جب کہ توثیق کرنے والے ابن شاہین ،احمد بن صالح، عجلی، ابن سفیان اور ابن سعد ہیں ۔ حافظ محمد زبیر تیمی لکھتے ہیں : ’’یہی وجہ ہے کہ امام مسلم نے بھی اس سے حدیث نقل کی ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے صدوق کہا ہے۔‘‘ (ایضاً) ان دونوں میں تیمی صاحب نے انصاف سے کام نہیں لیا، کیونکہ امام مسلم نے اس سے اِصالۃً روایت نہیں لی بلکہ مقرونًا بالغیر روایت لی ہے۔ جیسا کہ امام ذہبی نے المغني في الضعفاء اور الکاشف میں اس کا تذکرہ کیاہے۔ تو ایک راوی سے اصالۃً روایت کرنا اور بات ہے جب کہ مقرونًا بالغیر روایت کرنا اور بات ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کی بات اُنہوں نے اَدھوری نقل کی ہے۔ جیسے کوئی شخص لا تقربوا الصلاۃ کونقل کرے اور وأنتم سکارٰی کو چھوڑ دے۔اُنہوں نے امام ذہبی کی بات ’صدوق ‘ تو لے لی، لیکن اُنہوں نے صدوق سے متصل جو لفظ رديء الحفظ لکھا ہے ،اسے چھوڑ دیا ہے۔ پورا جملہ یہ ہے ہے:’’صدوق رديء الحفظ‘‘ اب کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ امام ذہبی اسے صدوق رديء الحفظ یا مشہور سيء الحفظ (کما في المغنی في الضعفائ) |