علاوہ اَزیں ایک نہایت اہم موضوع ’چہرہ کا پردہ‘ پر بھی حافظ محمد زبیر تیمی حفظہ اللہ کامضمون شائع ہوا ہے۔یہ موضوع جتنا اہم اور سنجیدہ ہے، مذکورہ مضمون میں اس کے ساتھ اتنا ہی غیر سنجیدگی کامظاہرہ کیا گیاہے۔اس حوالے سے چند نکات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔مقصد یہ ہے کہ ’محدث ‘ جو ہم سب کا ترجمان مجلہ ہے، مزید باوقار بنے اور محل اعتراض نہ ٹھہرے ۔ 1. حافظ محمد زبیر صاحب نے صفحہ ۲۲ پر اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیثدرج کی ہے: قَالَتْ: کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ مُحْرِمَاتٌ فَاِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ اِحْدَانَا جِلْبَابَھَا مِنْ رَأْسِھَا عَلیٰ وَجْھِھَا فَاِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ اور پھر اس پر اِعتراض نقل کیا ہے کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کو اَزواجِ مطہرات کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اس کاجواب دیتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں : ’’اس حکم کو ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ،کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث میں صرف اپنا طرزِعمل بیان نہیں کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر حج کے دوران جتنی بھی خواتین ہوتی تھیں ، ان سب کے بارے میں بتلایا ہے کہ قریب سے گزرنے پر اپنے چہرے اپنی چادروں سے ڈھانپ لیتی تھیں ۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر یہاں ازواجِ مطہرات کے علاوہ دیگر عورتیں بھی مراد ہیں توکیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور قافلوں کے آنے پر پردہ ڈال دیتی تھیں ۔ اس کامطلب تو یہ ہوا کہ کسی اجنبی کے ہوتے ہوئے عورت چہرہ کھلا رکھ سکتی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ عورتیں اپنے اپنے محارم کے ساتھ سفر کرتی تھیں یا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ؟ اگر اس سے اَزواجِ مطہرات کے علاوہ دیگر محارمِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں تو اس کی حدیث میں نہ تو وضاحت کی گئی ہے اور نہ کوئی دلیل ذکر ہے۔ میرا مقالہ نگار سے سوال ہے کہ اس باب میں ص ۲۷ پر درج کردہ جب فاطمہ بنت منذر رضی اللہ عنہا والی حدیث موجود ہے تو اس طرح کی ضعیف السند اور غیر واضح حدیث سے استدلال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ فاطمہ بنت منذر والی حدیث کے الفاظ یہ ہیں : ’’کُنَّا نُخَمِّرُ وُجُوْھَنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ وَنَحْنُ مَعَ اَسْمَائَ بِنْتِ اَبِیْ بَـکْرٍ الصِّدِّیْقِ‘‘ (موطا امام مالک: رقم ۷۲۴) |