میں ۳۰ سال سے مبتلا ہوں اور مرگی کی ایک دوا ہے جس کے استعمال سے میرا دل اور دماغ میرا ساتھ نہیں دیتے۔یہ دوا اتنی نشہ والی ہے کہ اس کے استعمال سے دورہ تو نہیں پڑتا، لیکن دوا کے استعمال کرنے سے ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ ہوش نہیں رہتا۔ایسی صورتحال میں شریعت کی رہنمائی کیا ہے؟ جواب:صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: لیس لمجنون ولا لسکران طلاق دیوانے اور نشہ والے کی طلاق کا اعتبار نہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’طلاق السکران والمستکرہ لیس بجائز ‘‘ ’’یعنی نشہ والے اور مجبورکی طلاق واقع نہیں ہوتی۔‘‘ قصہ علی رضی اللہ عنہ او رحمزہ رضی اللہ عنہ جس میں یہ ہے کہ نشہ کی حالت میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے نازیبا کلمات کہے، اس پر حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں : ’’وھو من أقوی أدلۃ من لم یؤاخذ السکران بما یقع عنہ فی حال سکرہ من طلاق وغیرہ‘‘ (فتح الباری: ۹/۳۹۱) ’’یہ قصہ ان لوگوں کی سب سے مضبوط دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ حالت ِنشہ میں طلاق وغیرہ واقع نہیں ہوتی لہٰذا مذکورہ بالا صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔‘‘ سوال:بعض لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ نمازِ تراویح باجماعت پڑھنا بدعت ہے اوریہ نماز عشاء سے متصل نہیں بلکہ پچھلی رات یعنی رات کے آخری حصہ میں باجماعت اَدا کی جائے۔ جواب:نمازِ تراویح باجماعت پڑھنا بدعت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت تین چارراتوں تک قیام اللیل فرمایاتھا۔ پھر محض اس وجہ سے اس عمل کو ترک کیا تھا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب فرضیت کایہ خدشہ زائل ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس نیک کام کودوبارہ پھر شروع کردیا۔ عشاء کے بعد کسی وقت بھی قیام اللیل ہوسکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت اس امر پر واضح دلیل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی سہولت کے پیش نظر اس کو رات کے پہلے حصہ میں مقرر کردیاجو کوئی بدعت کام نہیں ، تراویح کے جملہ مسائل کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو:( قیام اللیل للمروزی) سوال:ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی پھررجوع نہیں کیا اور نہ ہی بعد میں دوسری اور تیسری طلاقیں دیں ۔ کئی سال گزر جانے کے بعد دونوں فریق صلح پر رضا مند ہیں ۔ |