آئے اور اُن سے مشاورت کی۔ ڈاکٹر صاحب اس ملاقات کی تفصیلات بتایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے میاں نواز شریف کو سب سے پہلے سودی نظام کے خاتمہ کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھانے کا مشورہ دیا۔ مجھے ان کی انقلابی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کی سادگی، دینداری اور ذاتی زندگی میں عاجزی نے بے حد متاثر کیا۔ ڈاکٹر صاحب اگر چاہتے تو بے پناہ دولت کما سکتے تھے۔ ان کے بھائیوں نے کاروبار میں کروڑوں روپے کمائے مگر اُنہوں نے دولت جمع کرنے کی کاوش کبھی نہ کی۔ ان کی ساری جدوجہد قرآن وسنت کی دعوت کے لئے مخصوص تھی۔ اُنہوں نے شروع سے سادہ رہن سہن اختیار کیا۔ ۱۹۷۸ء میں جب ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہوئے تو وہاں قرآن اکیڈمی کے دو کمروں پر مشتمل آٹھ فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ میں رہائش اختیار کی، باقی سات فلیٹ تنظیم اسلامی کے ارکان کے لئے مخصوص کر دیئے گئے۔ چند سال پہلے اُنہوں اپنے ذرائع آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات پر مبنی ایک کتابچہ تحریر کیا۔ یہ کتابچہ پڑھ کر بے حد حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس قدر مالی بد حالی میں قناعت کی زندگی گزار رہے تھے۔ پانچ چھ برس پہلے مجھے ان سے اُسی فلیٹ میں ملنے کا موقع ملا جس میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ہر طرف سادگی نظر آتی تھی۔ان کے ایک رفیق نے بتایا کہ اس فلیٹ کا فرنیچر تیس سال سے زیادہ پرانا ہے۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب کو خرچ کرنے کے لئے صرف آٹھ ہزار روپے ماہوار ملتے تھے جس کا بڑا حصہ ان کے بیٹے ڈاکٹر عارف رشید دیتے تھے۔ان کے پاس پہننے کے لئے محض دو چار سوٹ تھے، دو تین واسکٹ تھیں جسے وہ بدل بدل کر پہنتے تھے۔ کھانا بے حد سادہ تھا، ان کی ذات عملی تقویٰ اور تدین کا اعلیٰ نمونہ تھی۔وہ معاشرے سے غلط رسومات کے خاتمے کی بات کرتے تھے۔سب سے پہلے اُنہوں نے اپنے خاندان سے ابتدا کی۔ ان کے بیٹے اور بیٹیوں کی شادیاں اسلامی طریقے پر ہوئیں ۔ مسجد میں بے حد سادہ تقاریب میں نکاح خوانی کی گئی۔ کسی تکلف اور بے جا اِسراف سے گریز کیا گیا۔ راقم الحروف کو لاہور کے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث مسالک کے علماء و مشاہیر سے ملنے او ران کے خاندانوں کے متعلق براہِ راست جاننے کے متعدد مواقع ملے ہیں ۔ میں بے |